18 ستمبر 1974ء کو پاکستان کے نامور موسیقار اور گلوکار استاد امانت علی خان وفات پاگئے۔
استاد امانت علی خان کا تعلق برصغیر کے مشہور موسیقی دان گھرانے پٹیالہ گھرانے سے تھا۔ وہ جرنیل علی بخش کے پوتے اور استاد اختر حسین خان کے فرزند تھے۔ وہ 1928ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے تھے اور 1948ء میں پاکستان آگئے تھے۔
استاد امانت علی خان‘ بالعموم اپنے چھوٹے بھائی استاد فتح علی خان کے ہمراہ سنگت کرتے تھے وہ کلاسیکی اور ہلکی پھلکی موسیقی دونوں میں یکساں مہارت رکھتے تھے۔ استاد امانت علی خان کی آواز میں ملائمت تھی جسے فتح علی خان اپنی مرکیوں‘ تان‘ پلٹوں اور پیوندوں سے سجاتے چلے جاتے تھے اور سننے والوں پر سحر طاری کردیتے تھے۔
عموماً کلاسیکی راگ گانے والوں کو غزل اور گیت گانے میں دشواری پیش آتی ہے مگر استاد امانت علی خان اس میں استثنیٰ رکھتے تھے۔وہ جب غزل یا گیت گاتے تھے تو ان کے کمالات مزید کھل کر سامنے آتے تھے۔آتش کی غزل ’’یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے‘‘ ظہیر کاشمیری کی غزل ’’موسم بدلا رت گد رائی اہل جنوں بے باک ہوئے‘‘ سیف الدین سیف کی غزل ’’مری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے‘‘ ادا جعفری کی غزل ’’ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے‘‘ ابن انشا کی غزل ’’انشا جی اٹھو اب کوچ کرو‘‘ اور ساقی جاوید کا ملی نغمہ ’’چاند میری زمیں پھول میرا وطن‘‘ ان کے چند ایسے ہی گائے ہوئے فن پارے ہیں جو ان کی یاد ہمیشہ تازہ رکھیں گے۔
استاد امانت علی خان لاہورمیں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودئہ خاک ہیں۔