کراچی : سپریم کورٹ نے ای او بی آئی ایکٹ 1976ء کی رعائتی شق 22 (2) پر ای او بی آئی کے حق میں فیصلہ سنا دیا ۔ بیمہ دار افراد کی اپیلیں مسترد کر دے دی ۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) کے بعض بیمہ دار افراد کی جانب سے ای او بی ایکٹ 1976ء کی شق 22(2) کے تحت پانچ اور سات برس کی بیمہ شدہ ملازمت کی بنیاد پر تا حیات بڑھاپا پنشن کے لئے بیمہ دار افراد کی عمر کے استثنیٰ کے متعلق دائر درخواستوں کے خلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے ای او بی آئی کے مؤقف کو درست تسلیم کر لیا ہے اور مدعا علیہان کی اپیلیں مسترد کر دی ہیں ۔
ای او بی آئی کے سابق افسر تعلقات عامہ اور ڈائریکٹر سوشل سیفٹی نیٹ پاکستان اسرار ایوبی کے مطابق ای او بی ایکٹ مجریہ 1976ء کی رعائتی شق 22(2) پر کافی عرصہ سے ای او بی آئی اور اس کے بیمہ دار افراد کے درمیان تنازعہ چلا آ رہا تھا اور اس سلسلہ میں متعدد بیمہ دار افراد نے ای او بی آئی کے خلاف مختلف ہائی کورٹوں سے رجوع کر رکھا تھا ۔ اس سلسلہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 27 اپریل 2021ء کو ایک رٹ پٹیشن نمبر 2502/2020 پر اور پشاور ہائی کورٹ نے 19 جون 2023ء کو دوسری رٹ پٹیشن نمبر 2746-P/2021 پر ای او بی آئی کے حق میں اور بیمہ دار افراد کے خلاف فیصلہ صادر کیا تھا جبکہ اسی معاملہ میں سندھ ہائی کورٹ نے 30 نومبر 2022ء اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے 3 اپریل 2023ء کو بیمہ دار افراد کی رٹ پٹیشن نمبر 5202/2020 پر ای او بی آئی کے خلاف اور بیمہ دار افراد کے حق میں فیصلے صادر کئے تھے ۔
جس کے نتیجہ میں مختلف ہائی کورٹس کی جانب سے دیئے گئے فیصلوں میں ای او بی ایکٹ 1976ء کی دفعہ 22(2) کی تشریح میں متضاد آراء سامنے آئی تھیں ۔ ان قانونی موشگافیوں کی بناء پر ای او بی آئی اور بیمہ دار افراد کے درمیان ایک تنازعہ پیدا ہو گیا تھا جس پر یہ معاملہ کسی حتمی فیصلہ پر پہنچنے کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے روبرو جا پہنچا تھا ۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بنچ نے اس کیس کا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ای او بی ایکٹ 1976ء کی دفعہ 22 (2) کے مطابق یہ ایک محدود اطلاق ہے کہ جس سے صرف وہی بیمہ دار فرد فائدہ اٹھا سکتا ہے جو دفعہ 22 (2) (i) اور (ii) کی قطع تاریخوں میں ذکر کردہ عمر کا حامل ہو، (i) جولائی 1976ء کی پہلی تاریخ کو یا(ii) اس کے بعد تب یہ ایکٹ کسی صنعت یا ادارہ پر لاگو ہوتا ہو ۔ اس طرح اس بیمہ دار فرد کو اپنی تاحیات بڑھاپا پنشن کے حصول کے لئے 35 برس( خواتین بیمہ دار فرد کے لئے) اور 40 برس ( مرد بیمہ دار فرد کے لئے) کو عمر میں استثنیٰ کی رعایت درج بالا دو قطع شدہ تاریخوں پر صرف ایک بار مل سکتی ہے ۔ جبکہ دوسری جانب مدعا علیہان کا دعویٰ تھا کہ اس ایکٹ کی دفعہ 22(2) بیمہ دار فرد پر مقررہ قطع تاریخ سے قطع نظر خود بخود لاگو ہوجاتی ہے جب کسی صنعت یا ادارہ کا کوئی شخص ای او بی آئی کی قابل بیمہ ملازمت میں داخل ہو جاتا ہے ۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے فیصلہ میں آئین کے آرٹیکل 38 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ عوام کی سماجی اور معاشی بھلائی کو فروغ دے اور لازمی سماجی بیمہ کے ذریعہ تمام باروزگار شہریوں کو سماجی تحفظ کی سہولت فراہم کرے ۔ یہ ایکٹ وفاقی قانون سازی کے ذریعہ صنعتی، تجارتی اور دیگر اداروں کے ملازمین کو بڑھاپے کے فوائد فراہم کرنے کے لئے یکم جولائی 1976ء کونافذ ہوا تھا ۔ یہ ایکٹ فائدہ مند قانون ہے جو اس کے دائرہ میں آنے والے ہر صنعتی، تجارتی اور دیگر اداروں کے ملازمین کو تحفظ اور بڑھاپے کے فوائد فراہم کرنے کا عزم رکھتا ہے ۔ یہ ایکٹ ہر صنعت یا ادارے پر یکساں لاگو ہوتا ہے جیسا کہ ایکٹ کی دفعہ1(4) میں بیان کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بنچ نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد 18 جنوری 2024ء کو اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا ۔ بعد ازاں جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندو خیل پر مشتمل تین رکنی بنچ نے 18 فروری 2024ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ای او بی آئی کے خلاف ہونے والے فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ای او بی آئی کے حق میں فیصلہ سنادیا تھا اور مدعا علیہان کی اپیلوں کو مسترد کردیا تھا ۔ اس اہم کیس میں ای او بی آئی کی جانب سے ای او بی ایکٹ 1976ء کے ماہر عبدالاحد میمن ڈائریکٹر لاء نے ممتاز ماہر قانون دان بیرسٹر محمد عمر ریاض کی معاونت سے بھرپور انداز اور موثر دلائل کے ذریعہ پیروی کی ۔
اسرار ایوبی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس تاریخی فیصلہ کے نتیجہ میں ایک جانب ای او بی ایکٹ مجریہ 1976ء کی دفعہ 22(2) کی اب واضح طور پر قانونی تشریح ہوگئی ہے تو دوسری جانب امید ہے کہ اس فیصلہ سے ای او بی آئی کے پنشن فنڈ پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے جو وفاقی حکومت کی جانب سے 1995ء سے مساوی امداد کی بلا جواز بندش ، آجران کی اکثریت کی جانب سے ای او بی آئی کے واجب الادا کنٹری بیوشن کی عدم ادائیگی کی پالیسی اور پنشنرز کی دن بدن بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث پہلے ہی زبردست خسارہ کا شکار ہے۔