منگل, فروری 4, 2025

قائد اعظم عظیم رہبر

تحریر: فارینہ حیدر

محمد علی جناح بھائی، 25 دسمبر 1876ء  کو پیدا ہوئے۔ نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان ہیں۔ محمد علی جناح 1913ء میں مولانا محمد علی جوہر کے کہنے پر آل انڈیا مسلم لیگ کی ممبر شپ لی اور پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے۔ سرکاری طور پر آپ کو قائدِ اعظم یعنی سب سے عظیم رہبر اور بابائے قوم یعنی قوم کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔

      آج  کا مضمون ہم 1857ء کی جنگ آزادی سے شروع کرے گے۔یہ جنگ  10 مئی 1857ء کو شروع ہوئی اور یکم نومبر 1858ء کو ختم ہوئی ،یعنی یہ جنگ ایک سال 5 ماہ اور 22 دن تک چلی اس جنگ کو انگریزوں  نے جنگِ غدر کا نام دیا ، جانبازِ حریت، میرٹھ سے دہلی آئے اور 11 جون 1857ءکو علماء سے اس  جنگ کے متعلق   فتویٰ لیا  تو مسلمان علما نے دہلی کی جامع مسجد سے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا جس کے نتیجے میں مسلمانوں نے اس جنگ کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھا اور انگریزوں  کے خلاف لڑے ۔ جن علماء نے جہاد کا فتویٰ  دیا ان  میں اکثریت ان علماء کی تھی ، جو شاہ ولی اللہ صاحبؒ کے حلقہ سے تعلق رکھتے تھے ۔تحریک ولی اللہی 18ویں صدی میں شاہ ولی  اللہ  صاحبؒ نے شروع کی ،جس کا مقصد  برصغیر پاک و ہند میں اسلامی بیداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا ۔ان کی تحریک کے زیر اثر دو مزید تحریکوں نے جنم لیا  پہلی سید احمد بریلوی  کی” تحریک مجاہدین ” جس کی مثال آخری صدیوں میں نہیں ملتی۔ بعض سیاسی تقاضوں اور فوجی مصالح کی بنا پر سید صاحب نے اپنی مہم کا آغاز ہندوستان کی شمال مغربی سرحد سے کیا۔ سکھوں سے جنگ کر کے مفتوحہ علاقوں میں اسلامی قوانین نافذ کیے۔ لیکن بالآخر 1831ء میں رنجیت سنگھ کی کوششوں کے نتیجے میں بعض مقامی پٹھانوں نے بے وفائی کی اور بالاکوٹ کے میدان میں سید صاحب اور ان کے بعض رفقا نے جامِ شہادت نوش فرمائی   دوسری تحریک بنگال سے تعلق رکھنے والے  حاجی شریعت اللہ کی تھی جسے ” فرائضی تحریک "کہا جاتا ہے۔ ان حالات پر غور کریں تو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ علماء نے 1857ء سے پہلے ہی آزادی کے لیئے جہدوجہد شروع کردی تھی لیکن  ان تحریکوں نے جنگ کی شکل اس وقت  اختیار کی جب مسلمان اور ہندؤ فوجیوں نے اپنے افسران کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا ۔

      اگست 1858ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے اعلان
ملکہ وکٹوریہ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کرکے ہندوستان کو تاج برطانیہ کے سپرد کر دیا۔ اس  جنگ کے بعد  مسلمان انگریزوں کے عتاب کا شکار ہوئے اور  ہندؤوں نے انگریزوں سے  مفاہمت کر لی ۔انگریز بھی یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ گئے تھے ایک وقت میں دو قوموں  سے اکھٹے نہیں لڑا جاسکتا اس لیئے انھوں نے ہندوؤں کو توڑ لیا اور مسلمانوں پر ظلم ڈھانے لگے۔مسلمانوں کے زرائع آمدن بند کردئیے ، نوکریوں سے نکال دیا ان کی جائیدادیں ضبط کرلی اور انہیں کوڑیوں  کا محتاج کردیا ۔

مسلمانوں پر جدید علم کے دروازے بند کر دیے گئے۔ اور خود مسلمان بھی نئی دنیا سے دور ہوتے چلے گئے۔ ایسے میں سرسید جیسے لوگ سامنے آئے جنھوں نے اس جنگ آزادی کے وجوہات پر روشنی ڈالی اور انگریزوں پر زور دیا کہ ہندوستانیوں میں موجود احساس محرومی کو دور کر کے انگریز ان پر حکومت کرسکتا ہے ۔ سر سید نے مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب لانے کے لیے کالج اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔

اس جنگ  میں ہندو اور مسلمان دونوں  مل کر لڑے  لیکن اس کے بعد انگریز کی سازش اور کچھ ہندوؤں کے رویے کی وجہ سے مسلمان اور ہندو الگ الگ قوموں میں بٹ گئے یوں پہلی مرتبہ دو قومی نظریے کی بنیاد وجود میں آئی۔

  یہ سارے واقعات  قائد اعظم   کی پیدائش سے پہلے ہی رونما ہوچکے تھے  ان حالات کو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جس دور میں محمد علی جناح پیدا ہوئے وہ کوئی  سکون اور خوشی والا ماحول نہیں تھا بلکہ مسلمان اس وقت شدید مالی اور سماجی مشکلات کا شکار تھے اس لئیے قائد اعظم کے والد نے  اپنے بچوں کو  انگریزی سکھائی   اور انہیں جدید تعلیم  دلوائی ۔

موجودہ دور میں ایسا بیان کیا جارہا ہے متحدہ ہندوستان کو تقسیم کرنے والے  جناح تھے جبکہ  اٹھارویں  صدی کے شروع میں ہی آزادی کی تحریکیں جنم لے چکی اس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ  انگریز  آدھی دنیا پر حکمرانی کی وجہ سے نسلی تفاخر میں مبتلاء ہوگئے تھے اور  محکوم قوموں سے جینے کا حق چھین لیا تھا  جبکہ اسی ہندوستان  پر مسلمانوں کی حکومت آٹھ سو سال  قائم رہی ۔

       کراچی کے پیدائشی اور "لنکن ان” سے بیرسٹری کی تربیت حاصل کرنے والے جناح،  بیس سال تک  آل انڈیا کانگریس کے اہم رہنما رہے  اپنی سیاست کے ابتدائی ادوار میں انھوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا۔ 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے مابین ہونے والے میثاق لکھنؤ کو مرتب کرنے میں بھی انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔ جناح آل انڈیا ہوم رول لیگ کے اہم رہنماوں میں سے تھے، انھوں نے چودہ نکات بھی پیش کیے، جن کا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ بہر کیف جناح 1920ء میں آل انڈیا کانگریس سے مستعفی ہو گئے، جس کی وجہ آل انڈیا کانگریس کے موہن داس گاندھی کی قیادت میں ستیاگرا کی مہم چلانے کا فیصلہ تھا۔

        1940ء تک ہندو اور مسلم فسادات اپنی انتہا کو پہنچ چکے تھے  کیونکہ ہندوؤں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ تاج برطانیہ اب مزید ہندوستان پر اپنا  قبضہ نہیں رکھ سکتا تھا کیونکہ ہٹلر نے یورپ میں جنگ چھیڑی ہوئی تھی اور  برطانیہ کی فوج کو چاروں طرف جنگوں کی وجہ سے پسپائی اختیار کرنی پڑ رہی تھی  دوسری جانب خطرہ یہ تھا کہ اگر جنگوں کو بند نہیں کیا گیا اور ملکوں کا قبضہ نہیں چھوڑا تو کہیں فرانس جیسا انقلاب برطانیہ میں بھی نہ آجائے اور حکمران طبقے کا قتل عام نہ شروع ہو جائے ،ان حالات کو دیکھتے ہوئے جناح کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ وطن کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ جناح نے   قرارداد پاکستان منظور کرائی جس کا مقصد نئی مملکت کی قیام کا مطالبہ تھا۔ دوسری جنگ عظیم  ختم ہونے کے مختصر عرصے میں ہی انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں جناح کی جماعت نے مسلمانوں کے لیے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی۔

     یہ کہنا غلط ہوگا کہ مسلم لیگ  صرف مسلمانوں کی جماعت  تھی اس میں اقلیتی رہنما بھی شامل ہوئے لیکن کانگریس  ،مسلم لیگ کے  الیکشن جیتنے کے بعد بھی انھیں  کچھ دینے کو تیار نہیں ہوئی اور مسلم لیگ کے کارکنان اور ووٹروں  کا عرصہ  حیات تنگ کرتے جا رہے تھے ۔

       آج ہم جو باچا خان  ، علماء دیوبند اور مولانا ابوالکلام آزاد کی پاکستان مخالف تحریریں پڑھتے اور سنتے  ہیں  تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کانگریس کے رہنما تھے اور  پاکستان بننے کے مخالف تھے ۔ ظاہر ہے وہ  اپنی پارٹی کا منشور اور اس کے افکار کی ہی ترویج کرتے  ،یہ حضرات مسلمان تو ضرور تھے لیکن مختلف نقطہ نظر رکھتے تھے جیسے مسلم لیگ میں غیر مسلم رہنما شامل ہوئے اور ان کانقطہ نظر کانگریس کے غیر مسلم رہنماؤں سے الگ تھا ۔  اب کانگریس  کے  چند رہنماوں کے خیالات کو   متحدہ  ہندوستان کے 8 کروڑ مسلمانوں کی دل کی آواز نہیں کہا جاسکتا تھا  ۔  خیر جب دونوں جماعتیں کسی صیغے پر متفق نہ ہو سکی تو  اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کیے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو لیکن یہاں بھی ہندؤوں نے اپنی چالاکی دکھائی  اور مسلم اکثریتی علاقوں پر بھی ہندؤوں کی اکثریت دیکھا کر وہ علاقے اپنے حصّے میں رکھ لیئے جیسے نارتھ انڈیا کے علاقے دہلی،  علی گڑھ ، جونا گڑھ، لکھنؤ حیدرآباد دکن ،بیہار وغیرہ وغیرہ ۔

بنگال سمیت سندھ، بلوچستان کے پی کے اور مشرقی پنجاب پاکستان میں شامل ہوئے کشمیریوں کا حق ان کے  راجہ نے چھین لیا اور وہ آج تک مقبوضہ علاقہ ہے ۔
پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے عہدے پر  محمد علی جناح فائز  ہوئے انھوں نے  اپنی حکومتی پالیسیوں کے قیام کے لیے کام کیا نیز انھوں نے  ان لاکھوں مہاجرین کی  بہبود اور آباد کاری کے لیے بھی کام کیا جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر چلے تھے اور معاہدے کے تحت یہاں پہنچے تھے  انھوں نے ان مہاجر کیمپوں کی ذاتی طور پر دیکھ بھال کی۔

جناح 71 سال کے عمر میں انتقال کر گئے جبکہ ان کے نوزائیدہ ملک کو سلطنت برطانیہ سے آزاد ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا قائد اعظم کا ہم پر احسان ہے کہ اپنی اتنی سخت بیماری کے باوجود انھوں نے قیام پاکستان کے لیئے اپنی صحت تک کی پرواہ نہیں کی ۔ ان کی سوانح عمری لکھنے والے لکھاری،اسٹینلی وولپرٹ لکھتے ہیں کہ، وہ (یعنی جناح) پاکستان کے عظیم ترین رہنما رہیں گے۔

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسکhttps://alert.com.pk/
Alert News Network Your Voice, Our News "Alert News Network (ANN) is your reliable source for comprehensive coverage of Pakistan's social issues, including education, local governance, and religious affairs. We bring the stories that matter to you the most."
متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں