انسانی ارتقا کا مطالعہ ہمیشہ سے ایک دلچسپ اور پیچیدہ موضوع رہا ہے۔ نئی تحقیقات اور دریافتیں اس کہانی کے مختلف پہلوؤں کو آشکار کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک اہم دریافت 2015 میں سامنے آئی، جب جنوبی افریقہ کے ایک غار میں ایک نئی نوع کے انسانی فوسلز دریافت ہوئے، جنہیں ہومو نالیدی کا نام دیا گیا۔ یہ دریافت نہ صرف انسانی تاریخ کے بارے میں نئی معلومات فراہم کرتی ہے بلکہ ارتقا کے مختلف مراحل کو سمجھنے میں بھی مددگار ثابت ہوئی ہے۔
ہومو نالیدی کی دریافت
ہومو نالیدی کے فوسلز جنوبی افریقہ کے علاقے گاؤٹنگ میں "رائزنگ اسٹار کیو” کے ایک غار میں پائے گئے۔ یہ تحقیق ڈاکٹر لی برگر اور ان کی ٹیم نے انجام دی۔ دریافت کے دوران تقریباً 15 افراد کے فوسلز ملے، جو انسانی ارتقا کے ایک منفرد باب کو نمایاں کرتے ہیں۔ یہ فوسلز تقریباً 236,000 سے 335,000 سال قدیم ہیں، جو انہیں جدید انسانوں (ہومو سیپیئنز) کے دور کے قریب لے آتے ہیں۔
ہومو نالیدی کی جسمانی خصوصیات
ہومو نالیدی کی جسمانی خصوصیات ایک منفرد امتزاج پیش کرتی ہیں، جن میں قدیم اور جدید انسانوں کی صفات شامل ہیں:
1. دماغ کا حجم: ہومو نالیدی کا دماغ چھوٹا تھا، تقریباً 465 سے 610 سی سی، جو ایک اورنگوٹان یا چمپنزی کے دماغ کے برابر ہے۔
2. قد و قامت: ان کا قد تقریباً 4.5 سے 5 فٹ کے درمیان تھا اور وزن 40-55 کلوگرام تھا۔
3. ہاتھ اور پاؤں: ان کے ہاتھ جدید انسانوں کی طرح ہنر مند تھے، جو اوزار بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کے پاؤں بھی جدید انسانوں جیسے تھے، جو سیدھا چلنے کی گواہی دیتے ہیں۔
4. ہڈیوں کی ساخت: ان کی جسمانی ساخت پتلی مگر مضبوط تھی، جو چڑھائی اور چالاکی سے چلنے کے لیے موزوں تھی۔
ہومو نالیدی کے طرزِ عمل
ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہومو نالیدی نے ممکنہ طور پر اپنے مردہ افراد کو غار میں دفن کیا، جو ارتقائی اعتبار سے ایک انتہائی پیچیدہ اور جدید طرزِ عمل ہے۔ یہ عمل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان میں سماجی شعور اور شعوری رویے موجود تھے، حالانکہ ان کا دماغ چھوٹا تھا۔
ہومو نالیدی کی اہمیت
ہومو نالیدی کی دریافت انسانی ارتقا کے حوالے سے کئی اہم سوالات کو جنم دیتی ہے:
1. ارتقا کا تسلسل: یہ نوع اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ارتقا ایک پیچیدہ اور شاخ دار عمل ہے، جس میں ایک وقت میں کئی مختلف انسانی انواع موجود ہو سکتی تھیں۔
2. دماغ اور شعور: ہومو نالیدی کے چھوٹے دماغ کے باوجود، ان کے پیچیدہ رویے اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ شعور اور ذہانت صرف دماغ کے حجم پر منحصر نہیں۔
3. انسانی انواع کا اختلاط: یہ دریافت اس بات کا امکان ظاہر کرتی ہے کہ قدیم انواع کے درمیان اختلاط ہوا ہوگا، جو جدید انسانوں کے ارتقا میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ہومو نالیدی اور دیگر انسانی انواع کا موازنہ
1. دماغ کا حجم
ہومو نالیدی کا دماغ 465 سے 610 سی سی کے درمیان تھا، جو کہ جدید انسان (ہومو سیپیئنز) کے 1200-1600 سی سی دماغ سے بہت چھوٹا ہے۔ نیینڈرتھالز کا دماغ 1200 سے 1750 سی سی تک بڑا تھا، جو ہومو سیپیئنز کے برابر یا اس سے بھی زیادہ تھا۔ ہومو ایریکٹس کا دماغ درمیانے درجے کا، تقریباً 600-1100 سی سی تھا۔
2. جسمانی قد و قامت
ہومو نالیدی کا قد 4.5 سے 5 فٹ تھا، جو جدید انسانوں سے چھوٹا تھا لیکن قدیم انسانی انواع جیسے ہومو ایریکٹس اور نیینڈرتھالز سے ملتا جلتا تھا۔ ہومو سیپیئنز کا قد عام طور پر 5 سے 6 فٹ تک ہوتا ہے، جبکہ نیینڈرتھالز کا قد 5 سے 5.5 فٹ کے درمیان ہوتا تھا۔
3. جسمانی ساخت
ہومو نالیدی کی جسمانی ساخت پتلی لیکن مضبوط تھی، جو چڑھنے اور متحرک رہنے کے لیے موزوں تھی۔ اس کے برعکس، نیینڈرتھالز کی ساخت بھاری اور طاقتور تھی، جو سرد علاقوں میں رہنے کے لیے موزوں تھی۔ ہومو سیپیئنز کی جسمانی ساخت متناسب اور متنوع ہے، جبکہ ہومو ایریکٹس کی ساخت مضبوط لیکن بھاری تھی۔
4. اوزار بنانے کی صلاحیت
ہومو نالیدی کے ہاتھوں کی ساخت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اوزار بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے، لیکن ان کے اوزار زیادہ ترقی یافتہ نہیں تھے۔ جدید انسانوں نے اعلی درجے کے اوزار، ہتھیار، اور دیگر اشیاء تیار کیں۔ ہومو ایریکٹس نے پتھر کے بنیادی اوزار بنائے، جبکہ نیینڈرتھالز نے اوزار سازی میں مزید مہارت حاصل کی اور جدید تکنیکوں کا استعمال کیا۔
5. دفن کرنے کا عمل
ہومو نالیدی نے ممکنہ طور پر اپنے مردہ افراد کو غاروں میں دفن کیا، جو ایک جدید رویہ سمجھا جاتا ہے۔ نیینڈرتھالز بھی اپنے مردہ افراد کو دفن کرتے تھے، جبکہ ہومو ایریکٹس میں ایسے شواہد نہیں ملے۔ جدید انسانوں میں دفن کرنے کے پیچیدہ رسومات اور روایات موجود ہیں۔
6. رہائش کا علاقہ
ہومو نالیدی جنوبی افریقہ کے مخصوص علاقوں تک محدود تھے، جبکہ ہومو سیپیئنز دنیا کے تقریباً تمام حصوں میں پھیل گئے۔ ہومو ایریکٹس نے افریقہ، یورپ، اور ایشیا کے وسیع علاقوں میں رہائش اختیار کی، اور نیینڈرتھالز نے زیادہ تر یورپ اور مغربی ایشیا میں سکونت اختیار کی۔
7. خوراک
ہومو نالیدی کی خوراک زیادہ تر گوشت اور پودوں پر مشتمل تھی، جو ابتدائی انسانی انواع کے لیے عام تھی۔ ہومو ایریکٹس اور نیینڈرتھالز کی خوراک بھی یہی تھی، لیکن نیینڈرتھالز زیادہ گوشت خور تھے۔ جدید انسانوں کی خوراک بہت متنوع ہے، جس میں زراعت اور پالتو جانوروں سے حاصل ہونے والی اشیاء شامل ہیں۔
8. ثقافتی ترقی
ہومو نالیدی کی ثقافت کے شواہد محدود ہیں، جبکہ نیینڈرتھالز نے ابتدائی فنون، اوزار، اور سماجی طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔ جدید انسانوں کی ثقافت زبان، آرٹ، اور سائنسی ترقی پر مبنی ہے، جو دیگر تمام انواع سے نمایاں طور پر مختلف ہے۔
ہومو نالیدی کے بارے میں موجودہ تحقیق
ہومو نالیدی کی دریافت کے بعد سائنس دان مزید تحقیق میں مصروف ہیں۔ ڈی این اے کے شواہد تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ نوع کس حد تک دیگر انسانی انواع کے قریب تھی۔
نوٹ: الرٹ نیوز نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔