تحریر: ریاض احمد، رکن سنڈیکیٹ کراچی یونیورسٹی
کہنے کو تو کراچی یونیورسٹی کے مسائل بہت ہیں۔ گزشتہ چار پانچ سال سے بہت بڑا مالی بحران ہے۔ انفراسٹرکچر تباہ ہے۔ تعلیمی معیار دگرگوں ہے۔ داخلوں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ طلبہ کی استعداد ہر سال کم سے کم تر ہے۔ جو فارغ التحصیل ہو رہے ہیں ان کو ملازمتیں چوکیداروں کی مل رہی ہیں یا یہ کئی کئی سال انٹرنشپ کے نام پر مفت کی غلامی کر رہے ہیں۔ مستقل اساتذہ کی تعداد گھٹ رہی ہے، جزوقتی کا معیار تباہ کن ہے اور انکی اجرتیں کھیت مزدور سے بھی کم ہیں۔ ریسرچ نام کی چیز اب لیپ ٹاپ تک اکثریت کے لیے محدود ہے کہ گنتی کے ریسرچرز کے علاوہ باقی 95 فیصد اپنی جیب سے رقم لگا کر تحقیق کر سکتے ہیں۔ اسٹاف و افسران کی تعداد بھی آدھی رہ گئی ہے، جو ریٹائر ہوئے انکی جگہ تقرریاں ناپید ہیں اور لوگ دس بیس سال سے ترقی کے منتظر ہیں۔
کراچی یونیورسٹی میں جو ہو رہا ہے اب تک ہم سب اسے اتنتظامی نااہلی ہی قرار دیتے تھے. مگر اس پوری صورتحال کو ایک تسلسل میں یعنی کل کے طور دیکھیں تو یہ انتظامی پالیسی ہے.
۲۰۰۸ء سے یونیورسٹی میں مستقل اساتذہ کی اسامیاں ۹۹۶ ہیں۔ دس سال قبل ان پر تعینات اساتذہ کی تعداد ۷۳۰ ہو گئی تھی۔ مگر ۲۰۱۶ء سے لیکچرر، اسٹنٹ پروفیسر کی نئی تعیناتیاں بند ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس سال یونیورسٹی میں مستقل اساتذہ کی تعداد ۵۸۰ ہو گئی ہے، اگلے مالی سال میں یہ تعداد ۵۳۰ ہو جائے گی۔شعبہ جات کی بہت بڑی اکثریت میں مستقل اساتذہ کی تعداد ۳۰ سے ۷۰ فیصد ہے۔ کئی شعبہ جات اور سینٹرز تو ایسے ہیں جہاں اگر آسامیاں ۱۵ ہیں تو وہاں اب ۶ اساتذہ ہیں۔ کام کا بوجھ گزشتہ چند سالوں پر جزوقتی اساتذہ پر بڑھایا جاتا رہا، مگر ان کو ناقابل یقین حد تک یعنی ۴۸۰ روپے فی لیکچر کی اجرت بھی سال دو سال بعد دی جاتی ہے تو نتیجہ یہ ہے کہ کئی ایک شعبوں میں کمپلسری مضامین تک پڑھانے کے لیے اساتذہ موجود نہیں۔ ایک بڑی تعداد میں شعبہ جات اور سینٹرز ایسے ہیں جہاں دس پندرہ سال پہلے جو مضامین اسپیشل آئیزیشن کے طور پر پڑھائے جا رہے تھے وہاں اب یہ مضامین ختم ہو چکے ہیں۔شعبہ جات میں آسامیوں بعد سب میں بڑا مسئلہ سلیکشن بورڈ ہے جو اشتہار کے پانچ سال بعد بھی مکمل نہیں ہو پا رہے۔ سینٹرز میں آسامیوں کا یہ حال ہے کہ ایک اسلامک سینٹر میں جہاں درجن بھر آسامیاں ہیں وہاں صرف ایک، جی صرف ایک، استاد بچ گیا ہے۔ سینٹرز میں آسامیوں کے بعد مستقل ڈائرکٹرز کی تعیناتی میں کئی کئی سال کی تاخیر ہے۔ پاکستان اسٹڈی سینٹر، میرین بیالوجی تو ایسے سینٹرز ہیں جہاں اساتذہ کی تعداد انگلیوں پر ہے اور ڈریکٹر کا انتظار چار تا چھ سال سے ہو رہا ہے۔ نیماٹولوجی سینٹر میں ایک بھی مستقل استاد نہیں اور سلیکشن بورڈ کسی کی تعیناتی سے معذور ہے۔ کئی سینٹرز میں ہاوس سیلنگ ڈھائی سال سے تعطل یا بندش کا شکار ہے اور میرین بیالوجی میں اساتذہ ملازمین تک کو کئی کئی ماہ بناء ہاوس سیلنگ والی سیلری بھی نہیں دی جاتی۔
یونیورسٹی سکڑ رہی ہے۔ ریسرچ سینٹرز خالی ہو رہے ہیں۔ ایسا کہاں ہوتا ہے؟ جی ایسا وہاں ہوتا ہے جہاں سرکار کی منشاء یہ ہو کہ سرکاری ادارے کی نج کاری کر دی جائے یا اسے بند کر دیا جائے۔بندش یا نجکاری کے لیے ضروری ہے کہ موجود سرکاری ملازمین کو ایسے ماحول میں لے آیا جائے کہ وہ سیلری تک نہ ملنےپر خاموش رہیں۔ یہی صورت حال پاکستان اسٹیل ملز اور دیگر نجکاری کے دہانے پر کھڑے سرکاری اداروں کی ہے۔تو کراچی یونیورسٹی اس وقت بندش یا نجکاری کے عمل کے اس مرحلے پر ہے جسے ڈائون سائزنگ کہتے ہیں۔
دیکھنے کو میرین بیالوجی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر منور رشید کی سیلری ۲۰ ماہ سے بند ہے۔ مگر یہ بھی ہے کہ باقی اساتذہ و ملازمین کی ہاوس سیلنگ ڈھائی سال سے بند ہے۔اور سب ہی کی سیلنگ بناء سیلری بھی کئی کئی ماہ نہیں دی جاتی۔ سلیکشن بورڈ کا مسئلہ ہر شعبہ میں ہے مگر میرین میں بھی آخری بورڈ ۲۰۱۲ میں ہوا تھا، جی ۱۲ سال قریب ۱۲ اساتذہ اگلے کیڈر کا انتظار کیے ریٹائر ہو گئے۔
لیبز تحقیق کے لیے وسائل ہر ہی شعبہ میں قریب ناپید کر دئیے گئے ہیں یا ملتے ہیں تو وہی جو ۲۰۰۵ میں ملا کرتے تھے۔ عمارتیں بوسیدہ، تباہ حال اور مخدوش ہو ہو کر سربمہر کی جا رہی ہیں۔ یوں ڈائون سائزنگ کا شکار محض میرین یا تنخواہ و ترقی کا مسئلہ محض منور رشید کا نہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ و ملازمین کا مسئلہ اب سیلری، ترقی، وسائل کا مسئلہ نہیں رہا۔ ہم سب کا مسئلہ اب ڈاون سائزنگ کا شکار ہونا بن گیا ہے۔اسی لیے نئی مستقل ملازمتیں ختم کرنے کے لیے بیوروکریٹس اور ریٹائرڈ سول و فوجی افسران کو وائس چانسلر و ڈائرکٹر لگانے کے قوانین متعارف کرائے جا رہے ہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم کراچی یونیورسٹی کے انتظامی مسئلہ کی اصل وجہ یعنی انتظامیہ کی روش جو سرکار کی روش ہے اسے جان جائیں۔ مالی بحران سے لے کر نااہل انتظامیہ کی تقرری کے پیچھے جو اصل نظریہ کار فرما ہے وہ اداروں کو بدحال کر کے انہیں بند یا انکی نجکاری کے لیے ہیومن ریسورس یعنی ملازمین کی تعداد کو گھٹاتے جانا ہے۔ ہم جتنی جلدی اس پالیسی کو سمجھ جائیں گے اتنی جلدی ہم اپنی حکمت عملی میں سے ذاتی و گروہی مفاد کو الگ کر کے ایک موئثر جدوجہد کا آغاز کر سکیں گے۔
فرینڈز آف منور اینڈ نصیر ۱۰ دسمبر بروز منگل دن 12 بجے کراچی یونیورسٹی اسٹاف کلب میں میرین بیالوجی میں سیلیری کے مسئلہ پر اجلاس رکھ رہے ہیں۔ تمام اساتذہ کو اس اجلاس میں شرکت کرنی چاہئیے اور اس سمت بڑھنے کے لے سوچ بچار کرنا چاہئیے کہ ڈائون سائزنگ کو کیسے روکا جائے اور یوں کراچی یونیورسٹی کو کیسے بچایا جائے۔