جمعرات, نومبر 21, 2024

جزیرہ ڈئیگو گارشیا – Diego Garcia Island (بحر ہند)

پاکستان سے ڈئیگو گارشیا کا فاصلہ قریباً مجمع الجزائر شاگوس تک اڑھائی ہزار میل ، جانب جنوب ہوگا۔

آمد و رفت ہوائی اور آبی راستہ دونوں موجود ہیں۔

پاکستان اور ڈئیگو گارشیا کا وقت برابر ہی ہے کیوں کہ طول بلد وہی ہے۔

پڑوسی ممالک قریب نہیں ہیں ۔ کچھ فاصلے پر سری لنکا، جزائر مالدیپ سی شیلز اور ماریشس وغیرہ پڑتے ہیں۔

ڈئیگو گارشیا آئیلینڈ کا رقبہ تیس سے ساٹھ کلومیٹر مربع بتایا جاتا ہے۔

آبادی کی کوئی تعداد مستقل نہیں قریباً چار ہزار امریکی و برطانوی فوجی اور سویلین وہاں رہتے ہیں۔ غیر متعلقہ افراد کا داخلہ ممنوع ہے۔

مالدیپ نسل کے مسلمان موجود تھے مگر انہیں نکال دیا گیا۔ کچھ کو ماریشس نے مہاجر و پناہ گزین درجہ دے رکھا ہے۔

پانچ ڈگری خط استوا سے نیچے اور 73 مشرق پر واقع یہ مونگہ جزیرے خوشگوار موسم رکھتے ہیں، بارش سارا سال وقتاً فوقتاً ہوتی ہے۔
سردی نہیں ہوتی ۔ کرتا شلوار اور بستر کے لیے ایک چادر کافی ہوتی ہے۔

جہاں کرنسی کوئی نہ ہو وہاں ہر کرنسی چل سکتی ہے۔ عام پیشہ ماہی گیری ہے۔

جب سے برطانیہ امریکہ گٹھ جوڑ ہوا اور اسے بحری ، ہوائی اور اسٹریٹیجک اڈے کی حیثیت ملی، ہر چیز دھند میں لپٹ کر رہ گئی ہے۔

شاگوس ننھے جزائر کا مجموعہ ہے۔ اس میں قریباً سات مجمع الجزائر اور پندرہ ریف اور بینکس واقع ہیں۔ بڑے جزیرے آباد تھے جب تک برطانیہ نے انہیں ساٹھ ستر کی دہائی میں خالی نہ کرالیا۔ ہزاروں ماہی گیر اور ناریل کے کاشتکار بے وطن ہو گئے ۔ یہ جگہ سو فیصد مسلمان جزائر مالدیپ سے 300 میل جنوب میں ہے۔ سن 1971 سے 60 میں سے صرف گارشیہ آباد ہے۔ قریباً 300 سے 3000 برطانوی اور 2700 امریکی فوجی یہاں ہر وقت ڈیوٹی کرتے ہیں ۔ کھانا پینا ، ہر چیز باہر سے آجاتی ہے۔
بظاہر بیرونی لوگوں کو دور رکھنے کے لیے برطانیہ نے اعلان کر دیا تھا کہ کئی لاکھ مربع کلومیٹر ارد گرد کا علاقہ ریزرو کرلیا جاۓ گا۔ یکم اپریل 2010 سے یہ رقبہ دگنا کر دیا گیا ہے، قریباً ساڑھے چھ لاکھ کلومیٹر۔ کوئی جہاز بہشتی یہاں نہ جاسکتی ہے۔

ماریشس نے بین الاقوامی عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا۔کورٹ ڈنہیگ نے ماریشس کے حق میں برطانیہ کے خلاف فیصلہ دے دیا مگر جزیرہ خالی نہ کرایا۔ برطانیہ زبان دے چکا ہے کہ جب فوجی مقصد کو ضرورت نہ رہیگی ، چھوڑ دونگا۔ فوجی مقاصد کو سٹریٹجک ایئر کمانڈ اور یو ایس نیوی اسے استعمال کر رہی ہے۔ رپورٹیں تھیں کہ عراقی اور افغان جنگ امریکی ایئر فورس نے بیشتر یہیں سے لڑی۔ ہو سکتا ہے ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ اس جگہ بلسٹک میزائلوں کے سائیلوز بھی بنارکھے ہوں کہ جہاں کروزیں نہ پہنچ سکیں۔میڈیم اور لانگ رینج بلسٹک میزائل استعمال ہوں، یوں بحر ہند کے تمام ساحلی ممالک کے ساتھ ساتھ ان کی پشت پر واقع ممالک بھی اس اڈے کی زد میں آجاتے ہیں ۔ اور پریڈیٹرونز کے استعمال میں یہاں کوئی رکاوٹ نہیں۔

ضروری نکتہ، مقامی ماہی گیر آبادیاں اپنا آئینی، قانونی حق پانے کی جدو جہد میں ہیں ۔ ان کی اپنے وطن میں آبادکاری کی صورت میں آنا جانا کھل جائے گا۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں