جمعہ, دسمبر 13, 2024

ارسا ایکٹ! آخر معاملہ کیا ہے؟

آج اس ملک کا ہر دوسرا شخص یہ ہی کہتا ہوا دکھائی دے رہاہے کہ حکمرانوں کی حکمت سے عاری اور ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہمارا جینا محال ہوچکاہے ۔درحقیقت عام آدمی کو اس وقت اپنی بنیادی ضروریات کی فکر ہے کو وہ اس مہنگائی اور بے روزگاری کے عالم میں کس طرح سے اپنی زندگی کا پہیہ چلائیں لیکن پریشانیوں کے جھمیلوں میں گھری پاکستانی قوم کو شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ اس ملک میں اور بھی بہت کچھ ہے جو ریاست کی ناقص حکمت عملی اور زاتی مفادات کے حصول کے چکر میں داؤ پر لگ چکی ہیں میں اس تحریر میں ایک اسی طرح کے اہم ایشو پر توجہ دلانا چاہونگا۔ان دنوں ہم دیکھ رہے ہیں کہ پانی کی شدید قلت سے دوچار سندھ کے ہاری اور آبادگارسندھ بھر میں ارسا ایکٹ میں ترمیم اور گرین انیشیٹیو پروگرام کے تحت صوبہ سندھ کے پانی کو بھی زیر استعمال لانے کے مجوزہ منصوبے کی وجہ سے شدید احساس عدم تحفظ کاشکار نظرآتے ہیں اور اس سلسلے میں سندھ کے مختلف گاؤں گوٹھوں میں سراپا احتجاج دکھائی دیتے ہیں۔

ہم نے دیکھا کہ سندھ کی سرزمین پر کالا باغ ڈیم کا نام لینا بھی بدترین جرم سمجھاجاتاہے مگر ارساایکٹ کے ایشو کو کھول کر عوام کے سامنے رکھاجائے تو ممکن ہے لوگ یہ کہنے پرمجبور ہوجائیں کہ یہ ارسا کا معاملہ تو کالا باغ ڈیم سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور نقصان دہ ہے۔سادہ سا فارمولہ ہے کہ اگر 48 لاکھ ایکڑ زمین جو کارپوریٹ فارمنگ کے لیے مختص کی گئی ہے،اس میں پہلے سے ہی پیاس سے بلکتا سندھ اگر اپنے حصے کا پانی دے گا تو اس صورت میں پھر سندھ تو بلکل ہی بنجرہوجائےگا کیونکہ یہاں تو پہلے ہی پانی کی شدید قلت ہے۔کسان و کاشت کار پہلے ہی پانی کی قلت کارونا رورہے ہیں جس کی وجہ سے وہ ہر فصل کے موقع پر پانی کی عدم فراہمی پریس کلبوں کے باہراحتجاج کرتے رہتے ہیں۔ اس صورت حال میں مذکورہ ارسا ایکٹ میں حالیہ ترمیم کی وجہ سے سندھ کی بنیادوں کاتو بھٹہ ہی بیٹھ جائے گا۔

جبکہ آہستہ آہستہ ملک کے آبی ماہرین اور دانشوروں کی وجہ سے اب یہ راز کھلتاچلاجائے گا جیسے جیسے سندھ کے آبادگاروں کو اس منصوبے کا علم ہوتا چلاجائے گااحتجاج کادائرہ شدت پکڑسکتاہے۔

تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کاتنازعے کی تاریخ بہت پرانی ہے، اس جھگڑے کی 1859 سے چل رہی ہے۔ برطانوی دور میں سندھ کی بارہا شکایات پر انگریز دور میں بھی دو کمیشن بنائے گئے ۔ 1935 میں اینڈرسن کمیشن اور 1941 میں انڈس راؤ کمیشن بن چکا ہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد چار کمیشن یعنی 1968 میں اختر حسین کمیشن، 1970 میں فضل اکبر کمیشن، 1981 میں انوارالحق کمیشن اور 1983 میں حلیماں کے نام سے ایک کمیشن بن چکاہے مگر سندھ اپنا آبی حصہ حاصل کرنے کے حوالے سے ہمیشہ انصاف کے لیے دربدر ہی رہاہے۔

اوران طویل پچھلی تاریخوں کو دیکھتے ہوئے سندھ کاواسی تو آج بھی اپنے حصے کاپانی حاصل کرنے کے لیے سراپااحتجاج ہی ہے اس پرانہیں یہ بھی سہی طرح معلوم نہیں ہے کہ ان پرایک اور شب خون مارنے کی تیاری کی جارہی ہے۔مجھے تویہ لگتاہے کہ اگر وفاق اور ان کی اتحادی سندھ حکومت نے ان منصوبوں بارے سندھ کے لوگوں کواعتمادمیں نہ لیا اور یہاں کے لوگوں کے تحفظات اور خدشات دور نہ کیے تو یہ چھوٹا سا احتجاج مستقبل قریب میں بہت زیادہ شدت اختیارکرسکتاہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دنوں پانی کے وسائل سے متعلق اسٹینڈنگ کمیٹی میں بھی ایک مرتبہ پھر سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا ذکر کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ارسا نے کالا باغ ڈیم سمیت دریائے سندھ پر 5 نئے ڈیموں کی سفارش کرنے کے ساتھ اس سے متعلق فزیبلٹی رپورٹ تیار کرنے کے لیے کہا ہے۔کچھ روزقبل سندھ کے ایک اخبارکے ایڈوٹوریل پیج پرشائع تحریر پرنظرپڑی جس میں لکھاتھاکہ ’8 جولائی 2024ء کو ملک کے صدر کے آفس میں گرین پاکستان انیشیٹیو کا ایک اجلاس ہوا۔ جس کی صدارت صدر مملکت آصف علی زرداری نے کی۔ اس کارروائی کی دستاویز کے مطابق زراعت، آبپاشی اور خوراک کے تحفظ سے متعلقہ معاملات کے بارے میں صدر کو آگاہی دی گئی۔ ایجنڈے میں ایک اہم بات ارسا ایکٹ میں ترمیم کے بارے میں تھی ۔ صدر صاحب نے ارسا میں تجویز کردہ ترامیم کی منظوری دی اور اس ایکٹ کو پارلیمنٹ سے منظور کرانے کے لیے اپنی مکمل حمایت کا یقین بھی دلایا۔مطلب یہ ہے کہ سندھ کا بیٹا جو ان دنوں اس ملک کا صدر بھی ہے وہ خود ارساایکٹ کی منظوری کے لیے خود کوتیارکرچکاہے۔جبکہ مشترکہ مفادات کونسل کے تحت اس مسئلے کاحل صوبوں کے دائرہ کار میں آتاہے۔

ارسا خود بین الصوبائی ادارہ ہے، جس کے تحت چاروں صوبوں کے ممبران مساوی حیثیت اور اختیار کے حامل ہوں گے اور ادارے کا چیئرمین بھی ان ہی صوبوں کے نمائندہ ممبران میں سے باری باری ہو گا تاہم چیئرمین کو کوئی صوابدیدی اختیار حاصل نہیں ہو گا۔اس بارے میں جو بھی پیش رفت ہونی ہے وہ صوبے ہی کرینگے اور اس کا بھی آئینی فورم مشترکہ مفادات کی کونسل ہے، گرین پاکستان انیشیٹیو اور صدر پاکستان کے آفس کے ایسا کوئی آئینی اختیار ہی نہیں ہے تو پھر اس اجلاس کے کیا مقاصد ہیں کیا ملک کاصدر صوبوں کی خودمختاری کو چیلنج کرنے کااختیاررکھتاہے۔اگر ایسا ہی ہے تو پھر بتایاجائے کہ کیا اس قسم کی حرکتوں سے غیر جمہوری طریقے سے فیصلے کرنے کی روایت کو جنم نہیں دیاجارہاہے۔جبکہ یہ ہی نہیں بلکہ رواں برس شروع کے مہینے میں بھی اس معاملے پر پیش رفت بڑھانے کی کوشش کی گئی جبکہ معلوم ہوتاہے کہ فیصلہ سازوں کو اس منصوبے کی تکمیل کے لیے من مرضی کے حکمرانوں کی ضرورت درپیش ہے کیونکہ نگراں حکومت نے بھی ارسا ایکٹ میں ترمیم کا ایک آرڈیننس سابق صدر عارف علوی کو بھیجا تھا جسے انہوں نے اعتراض لگا کر واپس کردیا تھا جبکہ اسی آرڈیننس کی منظوری کے لیے صدرزرداری نے اب یقین دہانی بھی کروادی ہے ۔دیکھا جائے توپاکستان پیپلزپارٹی نے اس معاملے میں دوہرامعیار اپنا رکھاہے۔جہاں پیپلزپارٹی کے صدرملکت نے اس ایکٹ کی منظوری کی یقین دہانی کروائی ہے وہاں ان کا اپنا صوبہ سندھ اس منصوبے کے خلاف شور بھی مچارہاہے کچھ دن قبل صوبائی اسمبلی نے مجوزہ ارسا ترامیم اور پانی کے انیس سو اکیانوے معاہدے پر عمل نہ ہونے کے خلاف قرارداد اتفاق رائے سے منظور کی ہے۔قرارداد پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے پیش کی جس کو ایوان نے بحث کے بعد متفقہ طور پر منظور کیا۔ سیدھی سی بات ہے کہ پی پی کی منظوری کے بغیر یہ ایکٹ منظورہوہی نہیں سکتا کیونکہ صوبے میں وزیراعلی آپکا ہے تو ملک کا صدرپاکستان بھی آپ ہی کا ہے۔

 

نوٹ: الرٹ نیوز نیٹ ورک اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں