ہمیں گزشتہ تین دن اپنے ننھیال مظفرآباد میں گزارنے کا موقع ملا ،اس شہر سے ہماری بچپن کی کئی یادیں وابستہ ہیں، اوپن ہارٹ سرجری کے بعد چونکہ یہ ہمارا پہلا دورہ تھا اس لئے معمول سے بڑھ کر خوب خاطر مدارت ہوئی،مگر پرہیز کے باعث ہم نے بھی ہاتھ کھینچ کر رکھا ۔مگر صحت کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے لئے بنائے گئے سپیشل کھابوں سے انصاف بھی خوب کیا۔۔۔
خیر آپ کو مظفرآباد سے متعارف کرواتے ہیں۔
مظفرآباد آزاد کشمیر کا دارالحکومت اور خوبصورت پہاڑی شہر ہے، جو دریائے نیلم اور دریائے جہلم کے سنگم پر واقع ہے۔ مظفرآباد اپنے شاندار قدرتی مناظر، سرسبز پہاڑوں، اور بہتے دریاؤں کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہاں کے سرسبز جنگلات، پہاڑی سلسلے، اور جھیلیں سیاحوں کو بہت متاثر کرتی ہیں۔
مظفرآباد میں پیر چناسی، مکڑا پیک، اور چکار جیسے خوبصورت مقامات سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ پیر چناسی کی بلندی سے پورے شہر کا دلکش نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔یہاں مغل اور سکھ ادوار کی تعمیرات بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ریڈ فورٹ یا چلہ کھانقہ ایک قدیم قلعہ ہے جو سیاحوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔
یہاں کے لوگوں کی ثقافت، رسم و رواج، اور طرز زندگی کشمیر کی قدیم ثقافت کا حصہ ہیں۔ یہاں کے لوگ مہمان نواز اور محبت کرنے والے ہیں۔مظفرآباد کا موسم سال بھر خوشگوار رہتا ہے۔ سردیوں میں یہاں شدید ٹھنڈ ہوتی ہےاور پہاڑوں پر برفباری بھی ہوتی ہے، جبکہ گرمیوں میں موسم معتدل رہتا ہے، جو سیاحت کے لیے بہترین ہے۔
مظفرآباد کی تاریخی حیثیت صدیوں پر محیط ہے، اور اس کا تعلق کشمیر کی قدیم تاریخ اور مختلف سلطنتوں سے ہے۔اس علاقے کو مختلف ادوار میں مختلف حکمرانوں نے آباد کیا اور یہ ریاست کشمیر کا حصہ رہا۔ مظفرآباد کشمیر کے اہم ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا۔
مغل دور میں بھی مظفرآباد کو اہمیت حاصل رہی۔ مغل شہنشاہوں نے کشمیر کے اس خوبصورت علاقے کی طرف توجہ دی اور یہاں اپنے فوجی قلعے اور راستے تعمیر کیے۔ مغل شہنشاہ اکبر کے دور میں کشمیر کو مغل سلطنت کا حصہ بنایا گیا، اور مظفرآباد مغل حکمرانوں کے زیر اثر رہا۔ مغل دور کے بعداٹھارہویں صدی میں جب سکھوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قیادت میں کشمیر پر قبضہ کیا تو مظفرآباد بھی سکھ سلطنت کا حصہ بن گیا۔ اس دور میں سکھوں نے یہاں فوجی چھاؤنیاں اور قلعے قائم کیے اور شہر پر اپنی حکمرانی قائم رکھی۔
1846 میں انگریزوں نے امرتسر معاہدے کے تحت کشمیر کو گلاب سنگھ ڈوگرہ کے حوالے کیا، جس کے بعد مظفرآباد بھی ڈوگرہ حکمرانوں کے زیر انتظام آیا۔ ڈوگرہ راج کے دوران، مظفرآباد کو کشمیر کے دفاعی مراکز میں سے ایک کے طور پر ترقی دی گئی۔