Is ‘Being Lucky’ or ‘Unlucky’ a Real Phenomenon?
ہم سب کی زندگی میں کبھی نہ کبھی یہ سوال آتا ہے کہ آیا ہم واقعی خوش قسمت ہیں یا بدقسمت؟ کیا ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے، وہ ہماری قسمت کا نتیجہ ہے یا ہماری سوچ کا؟ کچھ لوگ ہمیشہ خوش قسمت نظر آتے ہیں، جبکہ کچھ ایسے ہیں جو لگتا ہے ہمیشہ بدقسمتی کا شکار ہیں۔ لیکن، کیا یہ حقیقت ہے یا صرف ایک ذہنی تصور؟
اگر ہم سائنس کی نظر سے دیکھیں تو ہمیں یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہمارے خیالات اور ذہنیت کا ہماری زندگی کے نتائج پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک مشہور تجربہ "لک فیکٹر” (Luck Factor) کا ذکر کرنا ضروری ہے، جو کہ سائیکالوجسٹ رچرڈ ویس مین (Richard Wiseman) نے کیا تھا۔ ویس مین نے اپنے تجربے میں دو گروپ بنائے: ایک وہ لوگ جو اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے تھے اور دوسرے وہ جو اپنے آپ کو بدقسمت سمجھتے تھے۔
ویس مین نے دونوں گروپوں سے کہا کہ وہ اپنی زندگی میں ہونے والی اچھی اور بری چیزوں کا ریکارڈ رکھیں اور اپنے تجربات کا تجزیہ کریں۔ اس تجربے سے حاصل ہونے والے نتائج نے یہ ثابت کیا کہ جو لوگ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے تھے، وہ اپنے ارد گرد کی مثبت چیزوں کو زیادہ دھیان سے دیکھتے تھے اور ان سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہتے تھے۔ ان لوگوں کی سوچ میں ہمیشہ ایک مثبت زاویہ ہوتا تھا، جس کی وجہ سے وہ زیادہ مواقع کو اپنی طرف متوجہ کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ وہ اپنی کامیابیوں کے ذمہ دار ہیں اور اپنی سوچ و عمل سے اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں۔
دوسری طرف، جو لوگ اپنے آپ کو بدقسمت سمجھتے تھے، وہ ہمیشہ اپنی ناکامیوں کو قسمت کا کمال سمجھتے تھے۔ وہ اپنی زندگی کے منفی پہلوؤں پر زیادہ توجہ دیتے تھے اور ان میں بہت کم مواقع کی تلاش کرتے تھے۔ ان لوگوں کی سوچ منفی تھی، جو ان کی زندگی کو بدتر بنا دیتی تھی۔
Richard Wiseman’s Experiment:
ویس مین کے ایک مشہور تجربے میں دونوں گروپوں کو ایک ہی اخبار دیا گیا، جس میں ایک صفحے پر تصاویر کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ ان سے کہا گیا کہ وہ ان تصاویر کو گنیں۔ خوش قسمت لوگ، جو اپنے آپ کو لکی سمجھتے تھے، بہت جلد اس صفحے پر ایک پیغام دیکھ پائے جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ اس صفحے میں کتنی تصاویر ہیں، اور اس کی مدد سے وہ سیکنڈز میں جواب دے پائے کہ تصویروں کی تعداد کتنی تھی۔ بدقسمت لوگ، جو ہمیشہ اپنی زندگی کو منفی طور پر دیکھتے تھے، اس پیغام کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف تصاویر گننے میں لگے رہے اور ان کو اس بات کا اندازہ نہیں ہوا کہ کتنی تصاویر تھیں۔
اس تجربے کا مقصد یہ تھا کہ ویس مین یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ خوش قسمت لوگ جو اپنے ارد گرد کی دنیا میں مثبت پہلو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ زیادہ مواقع پہچان پاتے ہیں۔ اس کے برعکس بدقسمت لوگ جو اپنی ناکامیوں اور منفی پہلوؤں پر زیادہ دھیان دیتے ہیں، وہ مواقع کو نظرانداز کرتے ہیں۔
میرے ذاتی تجربات بھی اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ انسان کی سوچ اور ذہنیت اس کی تقدیر پر اثر انداز ہوتی ہے۔ میرے ایک دوست کا واقعہ یاد آتا ہے، جو ہمیشہ اپنے آپ کو بدقسمت سمجھتا تھا۔ وہ مسلسل اپنی ناکامیوں کو اپنی بدقسمتی کے کھاتے میں ڈالتا رہتا تھا۔ اس نے کبھی بھی اپنی غلطیوں پر غور نہیں کیا اور ہر ناکامی کو قسمت کا شاخسانہ سمجھا۔ نتیجتاً، وہ ہمیشہ اپنی زندگی میں مشکلات کا شکار رہا اور کسی بھی موقع کو کامیابی میں بدلنے میں ناکام رہا۔
اس کے برعکس، میرے ایک اور دوست کا حال مختلف تھا۔ وہ زندگی کو مثبت انداز میں دیکھتا تھا اور ہمیشہ اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ چاہے حالات جیسے بھی ہوں، وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا تھا اور مشکلات کو ایک نیا سیکھنے کا موقع سمجھتا تھا۔ اس کی یہ مثبت سوچ اور ذہنیت اس کی زندگی میں مسلسل ترقی کی وجہ بنی۔
آخرکار، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ "لکی” یا "ان لکی” ہونا دراصل ہماری ذہنی حالت اور سوچ پر منحصر ہے۔ ویس مین کے تجربے اور حقیقت-based واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان اگر اپنی سوچ کو مثبت رکھے اور اپنے فیصلوں میں اعتماد رکھے، تو وہ اپنی تقدیر کو بہتر بنا سکتا ہے۔ اس لیے، ہم اگر اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھیں اور اپنی زندگی میں ہر موقع کو اچھی طرح استعمال کرنے کی کوشش کریں، تو نہ صرف ہم اپنے لیے بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں، بلکہ اپنی زندگی کو بھی زیادہ کامیاب بنا سکتے ہیں۔