"ماں کی گود میں سونا چاہتا ہوں” – یہ معصوم الفاظ ایک ایسے بچے کے ہیں جو اپنی شہید ماں کی قبر سے لپٹ کر رات کی تاریکی میں سو رہا تھا۔ غزہ کے مشہور صحافی صالح الجعفراوی اس واقعے کے گواہ بنے، جب وہ رات کے وقت ایک قبرستان سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے ایک معصوم بچے کو دیکھا جو قبر سے لپٹا ہوا تھا۔ صالح نے اس تاریک اور خاموش ماحول میں اس بچے سے پوچھا: "تم یہاں کیا کر رہے ہو؟”
بچے نے ٹوٹے دل اور بے بسی کے ساتھ جواب دیا: "میں اپنی ماں کی گود میں سونا چاہتا ہوں۔” اس معصوم کی ماں، وسطی غزہ کے علاقے النصيرات کی وحشیانہ بمباری میں شہید ہوگئی تھی۔ صالح نے بچے کو سینے سے لگا لیا، اس کی بے بسی کو محسوس کیا اور شاید دل ہی دل میں ان الفاظ کی تلخی کو بھی۔
ذرا تصور کریں، اس معصوم کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی۔ رات کی خاموشی، قبرستان کی سنسان فضاء، اور اس کی ماں کی یاد، جس کی گود میں وہ اپنا سر رکھنا چاہتا ہے۔ مگر کہاں ہے ماں؟ وہ اب ایک مٹی کی گود میں ہمیشہ کے لیے سو چکی ہے۔
یہ منظر غزہ کے نہ ختم ہونے والے درد اور ان معصوموں کی داستان سناتا ہے جو ماں کی گود سے محروم ہو چکے ہیں۔ یہ غم، یہ تنہائی، اور یہ اندھیرے، شاید اس بچے کے دل پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو جائیں۔ اس اندھیری رات نے اس بچے کو ماں کے سایے کی تلاش میں مٹی کی گود میں لپٹنے پر مجبور کر دیا۔
ماں کی گود، جس میں سب درد بھلا کر سکون ملتا ہے، اس بچے کے لیے ایک خواب بن چکی ہے۔