Home اسلام جامعہ یوسفیہ بنوریہ کا احوال

جامعہ یوسفیہ بنوریہ کا احوال

26

تحریر: تاج الدین ربانی

جامعہ یوسفیہ بنوریہ میں مجھے دوسال پڑھانے کا موقع ملا 1994اور 95
جامعہ کے مہتمم حضرت مولانا حسن الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک مشنری شخصیت سب کیلئے باپ اور بڑے بھائی کی طرح شفیق انسان تھے
مجھے استاذ سے بڑھ کر پیار دیا اور سرپرستی کی
مجھے امامت کیلئے کورنگی جانا پڑتا اس سے چھڑایا
مجھے یہاں مدرسے سے متصل گھر دیا جو دوسال میرے پاس رہا جبکہ میرا اہل خانہ گاؤں میں تھے
ان کا تمام اساتذہ کرام سے شفقت کا رویہ تھا
ایک دن مطعم کے افتتاح کے حوالے سے مجھے جلدی تھی عرض کیا تو فرمایا کہ آپ جلدی تو بہت کرتے ہیں
لیکن ایک بوری سمیٹ لانا آپ کے بس میں نہیں
مجھے یہاں سے سمجھ آیا کہ مہتمم جامعہ کے ذمے ہر چیز ہے اور وہ دوسروں سے مانگ کر لاتے ہیں اور دوسروں سے چندہ یا تعاون نکالنے کیلئے کتنا بڑا دل اور گردے کی ضرورت ہے کہ سوال میں سب اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں
آخر میں جب جارہا تھا بامر مجبوری تو دوسال کی چھٹی لیکر گیا تھا
ہر جامعہ کا آغاز کتنا مشکلات سے ہوتا ہے یہ بنوری ٹاؤن اور دارلعلوم کراچی کے متعلق معلومات لینے سے اندازہ ہوگا
بلکہ ہر سال کا آغاز مشکل ہے صرف اللہ تعالیٰ پر ایمان اور یقین سے شروع ہوتا ہے آج کل تو بہت مشکل ہوا ہے
میں طالب علم اور مدرس کے بعد مہتمم تینوں تجربات سے گزرا ہوں
محکمہ پولیس میں تھانے کیلئے فنڈ نہیں ہوتا وہ رشوت وغیرہ کے ذریعے تھانے دار چلاتے ہیں
اور یہاں بچے داخل ہوتے ہیں فیس نہیں ہوتا یہاں ہر کام چندے سے کرنا پڑتا ہے جیسے یتیم خانہ ہے
دس سال تک بھی والد بچے کے پوچھنے نہیں آتا جیسے کسی یتیم یا جنات کو پڑھا رہے ہیں
خدا نخواستہ کوئ مسئلہ بن گیا تو ادارے کو بدنام کرنے کیلئے ایک پوری شیطانی طاقت سامنے آتی ہے
آپ جانتے ہیں کہ ابلیس پانی پر تخت نشین ہوکر اس ذریت اور شیطان کو سینے سے لگاتا ہے جس نے کسی بچے اور گھرانے کو علوم نبوت سے روکا ہو
میں سمجھتا ہوں سوشل میڈیا پر ان مسائل کو اجاگر کرنے سے شیطان کی ذریت بہت فایدے اٹھاتی ہے
آپ کی نیت بیشک اچھی ہو
ویسے آپس کی بات ہے کہ کوئ شخص اپنے ادارے کی ایسی تشہیر کو پسند کرتا ہے ؟
اب چونکہ پاکستان میں اس درویشی نظام کی برکات سے ہر طبقہ مدرسے میں آرہا ہے تو کیا خیال ہے ابلیس آرام سے بیٹھے گا اس نے کس کس کو نوکری پہ رکھا ہوگا
لیکن یقین جانیے یہ کتاب قرآن کریم اس زمانے کی کتاب ہے اور یہ علوم نبوت انقلابی پروگرام کے علوم ہیں
کیفیت بدل سکتی ہے لیکن قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا اس کے گلشن آباد رہیں گے ان شاءاللہ تعالیٰ
اور طلبہ کرام آنے کے بعد یہاں مہتمم ہی اساتذہ کرام کا تقرر اورانتظام کرتا ہے اور اس میں فرق اجایے تو بھی مہتمم مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے
چند بڑے مدارس چھوڑ کر قابل اور گوہرِ مراد اساتذہ کرام کیلئے ان کی مناسبت خدمت معاوضہ ادا کرنا انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے
چنانچہ اس درویشی نظام میں ضروریات اور تقاضوں کو دیکھ کر تو کوئ استاذ اس جیب خرچ پر اکتفا کرنے کیلئے تیار نہ ہو
لیکن وہ اپنے مشن اور درس نظامی کی تکمیل دیکھ کر
کسی اور طرف جانے کے بجایے توکل علی اللہ کے طور تیار ہوتا ہے
مجھے اپنا زمانہ تدریس یاد ہے تین مدارس میں پڑھا چکا ہوں
یہ یقین کہ اللہ تعالیٰ میری ضرورتوں کو پورا فرمائیں گے ہی اس کی تنخواہ ہوتی ہے
طوالت کے خوف سے مختصر عرض کرتا ہوں کہ 1 لاکھ تنخواہ میرے نزدیک آج کل ہونا چاہیے اگر وسائل ہوں
لیکن یہ اساتذہ کرام 10ہزار جسے میں شروع سے جیب خرچ کہتا ہوں پر قناعت کرتے ہیں اور دو چیزوں کے عوض قبول کرتے ہیں
ایک شاگرد طلبہ کرام کی طرف سے احترام اور عقیدت کے ساتھ مستقبل میں صدقہ جاریہ بنیں گے
اور دوسرا یہاں ان کی عزت نفس مجروح نہیں ہوگا
بلکہ وہ اس کار خیر میں برابر شریک ہیں
یوں خیر کے کاموں میں مال وقت اور جان تک لگانا ہوتا ہے تو چلیں پیسے کم صحیح اپنی صلاحیتوں کو مدرسے پر لگاتے ہیں
اور ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ سلسلہ دار ارقم اور پھر اصحاب صفہ کے میراث کے طور ملا ہے
اور مہتمم بچارا تو بھیگ مانگنے کا عھد و پیمان کرچکا ہے وہ بغیر چھری اپنے آپ کو ذبح کرچکاہے
وہ مشنری پوزیشن میں ہے اسے فرق نہیں پڑتا موسم جو بھی ہو
اس کو ذمے داری نبھانے کا فریضہ سب یاد دلائیں گے
کہ اس نے شروع جو کیا ہے وہ ہر سال مشکلات دیکھ کر اس سلسلے کو رمضان المبارک کے بعد محدود یا ختم کرنا چاہتا ہے ارادہ کرتا ہے لیکن خزانہ غیب سے انتظام دیکھ کر اس کا حوصلہ اور یقین مزید بڑھتا ہے
لیکن یاد رکھیں دو کام مشکل ترین ہیں کوئ مانے یا نہ مانے
ایک مہتمم ہر ایک نہیں بن سکتا یہ ہزاروں میں ایک ہوتا ہے کہ اس نے سراپا خیر ہونا ہوتا ہے
دوسرا انتخابات میں وہی اترے گا جس پر عوام کا اعتماد زیادہ سے زیادہ ہو اور ممتاز شخصیت ہی میدان عمل میں اترتی ہے
ان دونوں میں لینے کے بجایے دینے کا شوق اور قدم قدم پر ڈرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ پر ایمان بھروسہ اور خلق خدا کا اعتماد حاصل کرکے ہی میدان میں اترتے ہیں
مجھے مہتمم مدرسہ طلب علم اور مدرس کے خلاف ہر بات سوشل میڈیا پر بری لگتی ہے
جرم انسان سے ہوتا ہے اس کے لیے عدالت جرگے اور سزائیں موجود ہیں
پھر بھی اس کی تشہیر کو خود اس سے بڑا جرم سمجھتا ہوں سوایے زنی کے کوڑے اور رجم کے
کہ وہ منصوص ہیں
یہ میری رائے ہے غلط بھی ہوسکتی ہے
اللہ تعالیٰ ہم سب پر فضل وکرم فرمائے آمین