کراچی: وفاقی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر، ضابطہ خان شنواری کی جانب سے آج منعقدہ اساتذہ کا اوپن فورم مکمل طور پر ناکام رہا۔ اس فورم میں عبدالحق اور گلشن کیمپس کے 245 اساتذہ میں سے صرف ایک درجن بھی اساتذہ نے شرکت نہیں کی، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اساتذہ کی شرکت کی کمی اور عدم دلچسپی نے اس اجلاس کی اہمیت کو کم کر دیا۔
ذرائع کے مطابق، اوپن فورم میں عبدالحق کیمپس کی ایک خاتون استاد کو خاص طور پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ استاد موجودہ احتجاجی تحریک میں کافی سرگرم رہی ہیں، جس کے باعث ان کی مخالفت میں آوازیں اٹھائی گئیں۔ اس کے علاوہ، ایک سابق قائم مقام خازن، جو حال ہی میں نامزد کنندہ کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے ہیں، پر بھی تنقید کی گئی۔ اساتذہ نے سوال اٹھایا کہ انہیں کیوں منتخب کیا گیا۔
اس کے بعد سینڈیکیٹ کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں متعدد اہم فیصلے کیے گئے۔ تاہم، اس اجلاس میں بھی حاضری کافی کم رہی۔ ذرائع کے مطابق، سینڈیکیٹ میں حال ہی میں بغیر سلیکشن بورڈ ہونے والی بعض غیر تدریسی عمال کی تقرریوں پر غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں کالعدم کرنے کا عندیہ دیا گیا۔
اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ کئی شعبوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ضم کر دیا جائے۔ مثلاً، ایجوکیشن کے تین ڈیپارٹمنٹس کو ایک شعبے میں ضم کیا گیا، جبکہ اسلامیات، قرآن و سنہ اور ادیان عالم کے مضامین کو بھی ایک شعبے میں یکجا کیا گیا۔ اسی طرح، جیولوجی اور جغرافیہ کو بھی ایک شعبے میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
سینڈیکیٹ کی جانب سے جی آر ایم سی کے لیے جامعہ کے قانون کے مطابق تین پروفیسروں کو ممبر نامزد کیا گیا: پروفیسر ڈاکٹر زرینہ علی، پروفیسر ڈاکٹر محمد علی ویرسانی، اور پروفیسر ڈاکٹر عبدالمجید۔ ان نامزدگیوں کے ذریعے یونیورسٹی کی انتظامی امور میں بہتری لانے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ تمام فیصلے اس وقت کیے جا رہے ہیں جب اساتذہ کی جانب سے موجودہ نظام کے خلاف بے چینی اور احتجاج جاری ہے، جس نے یونیورسٹی کے ماحول کو متاثر کیا ہے۔