24 اکتوبر 1968ء کو اردو کے نام ور غزل گو‘ مرثیہ گو اور منقبت نگار شاعر جناب قمر جلالوی کراچی میں وفات پاگئے۔
استاد قمر جلالوی کا اصل نام محمد حسین عابدی تھا اور وہ 1884ء میں قصبہ جلالی ضلع علی گڑھ میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن ہی سے شاعری کا شوق تھا۔ انہوں نے بہت کم عمری میں شاعری میں دسترس حاصل کی اور 22 سال کی عمر میں شاگردوں کے کلام کی اصلاح کرنے لگے۔ یہیں سے لفظ استاد ان کے نام کا سابقہ بن گیا اور کیا چھوٹے کیا بڑے‘ سبھی انہیں استاد کہنے لگے۔
قیام پاکستان کے بعد استاد قمر جلالوی نے کراچی میں رہائش اختیار کی اور بہت جلد ہر مشاعرے کا جزولازمی بن گئے۔ وہ اپنے مخصوص ترنم اور سلاست کلام کی وجہ سے ہر مشاعرہ لوٹ لیا کرتے تھے۔ ان کے کلام میں دہلی اور لکھنو‘ دونوں مکاتب شاعری کی چاشنی‘ شوخی اور لطافت نظر آتی تھی۔ غزلیات کے علاوہ وہ مرثیے‘ سلام‘ منقبت اور رباعیات بھی کہتے تھے اور ان میں بھی ان کے کلام کی سبھی خوبیاں موجود ہوتی تھیں۔ ان کے کلام کے مجموعے اوج قمر‘ رشک قمر‘ غم جاوداں اور عقیدت جاوداں کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔
24 اکتوبر 1968ء کو استاد قمر جلالوی وفات پاگئے۔ حفیظ ہوشیار پوری اور راغب مراد آبادی نے ان کی تاریخ وفات ’’استاد قمر جلالوی کا ماتم‘‘ سے نکالی‘ اس مصرعے کے اعداد کا مجموعہ 1388 بنتا ہے جو استاد قمر جلالوی کا ہجری سن وفات ہے۔
استاد قمر جلالوی‘ کراچی میں علی باغ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ ان کی لوح مزار پر انہی کا یہ شعر کندہ ہے:
ابھی باقی ہیں پتوں پر جلے تنکوں کی تحریریں
یہ وہ تاریخ ہے‘ بجلی گری تھی جب گلستاں پر