جمعرات, نومبر 21, 2024

اردن – Jordan (مشرقِ وسطیٰ)

پاکستان سے اردن کا فاصلہ قریباً دو ہزار میل جانبِ مغرب براہ راست یا براستہ خلیج ہے ۔ آمد و رفت ہوائی سفر کے علاوہ بذریعہ سڑک براستہ ایران،ترکی اور شام بھی ممکن ہے۔ بحری سفر کھل گئے تو جدہ سے تھوڑا آگے اردن کی بندرگاہ عقبہ پڑتی ہے۔

پاکستان سے اردن کا وقت دو گھنٹے پیچھے ہے۔

اردن کے پڑوسی ممالک سعودی عرب، عراق، شام، فلسطین(مقبوضہ حصہ سمیت) اور مصر ہیں ۔

اردن قریباً ۳۵۰۰۰ مربع میل یا نوے ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔
ملک کا تین چوتھائی مشرق ایک صحرا ہے جبکہ دریائے اردن کی وادی نہایت زرخیز اور پر فضا ہے۔ مغربی حصہ میں چھوٹے چھوٹے پہاڑ ہیں۔ عراقی اور شامی جانب پتھروں کی بارش والا وسیع علاقہ ہے جہاں
حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب نازل ہوا تھا ۔

معان وغیرہ کا جنوبی علاقہ غالباً وہی ہے جہاں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم پر زلزلہ، چیخ اور آگ کا عذاب ہوا۔

دریائے اردن کی وادی پیغمبرِ اسلام کے جلیل القدر صحابہ رضی اللّٰہ عنھم کے مزارات سے بھری ہوئی ہے جو کفار کے مقابل یا طاعون عمواس میں شہادت پاگئے۔

موسم سرما کافی سرد ہوتا ہے، گرما خوب گرم ۔ مغربی علاقوں میں پندرہ بیس انچ بارش سالانہ ہے جو سردیوں میں ہوتی ہے، مشرق میں بارش بہت کم ہوتی ہے۔یہ علاقہ صحرائی اور خشک مزاج ہے۔ ہوا خوب چلنے سے، گرمی کا اثر کم ہوتا ہے۔

اردن کی کل آبادی تازہ اعداد و شمار کے مطابق قریباً ایک کروڑ ساڑھے پندرہ لاکھ ہے۔
دارالحکومت عمان میں قریباً ساڑھے بائیس لاکھ لوگ بستے ہیں۔
اردن میں اکثریت مسلمان ہے جو کل آبادی کا ستانوے 97 فیصد بنتی ہے۔عیسائی 2.1 فیصد ہیں انکے علاوہ باقی مذاہب کے لوگ بھی پاۓ جاتے ہیں۔

اردن کی سرکاری زبان عربی ہے مگر حیران کن حد تک ملک میں مروج ہے یہاں تک کہ اقلیتیں بھی عربی زبان ہی کا استعمال کرتی ہیں۔

اردن کی کرنسی دینار ہے جو نہایت مضبوط سکہ تصور ہوتا ہے۔ اسوقت ایک دینار تین سو نوے اعشاریہ پانچ پاکستانی روپے کے برابر ہے۔
اردن عالم عرب میں بنکاری اور مالیاتی معاملات کا مرکز ہے۔

سن 2024ء میں اردن کے جی ڈی پی کا تخمینہ 139.85 بلین ڈالر سالانہ ہے۔
فی کس کا تخمینہ 12 ہزار ڈالر ہے۔
اردن قدرتی فاسفیٹ، کیمیکلز اور بہت سی مصنوعات برامد کرتا ہے اور سیاحت بھی ترقی پر ہے۔

عام لوگ مذہب اسلام پر عمل کرتے ہیں اور اسے پسند کرتے ہیں۔ داڑھی،لمبا کرتہ اور خواتین میں پردہ کا رواج ہے۔

اردن کی تاریخ پر سرسری نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ
اردن محفوظ اور غیر محفوظ تاریخ میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے جو کہ پتھر کے دور تک جاتی ہے، اور تقریباً 1.5 ملین سال پہلے کی ہے۔ یہ سرزمین مختلف سلطنتوں کی گزرگاہ رہی ہے، اور اس نے اپنے گرد و نواح کی ثقافتوں سے گہرے اثرات قبول کیے ہیں۔ تجارتی راستوں کی اہمیت نے ہمیشہ اردن کے لوگوں کی زندگی میں بڑا کردار ادا کیا۔

نبطی سلطنت (چوتھی صدی قبل مسیح سے 106 عیسوی) مشہور شہر پیٹرا کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔ نبطی لوگ عربی بدو تھے جو تیل اور خوشبو کی تجارت کرتے تھے۔ پیٹرا کی منفرد حیثیت نے انہیں تجارتی راستوں پر کنٹرول فراہم کیا۔نبطی جو چوتھی صدی قبل مسیح سے دوسری صدی عیسوی تک تجارتی سرگرمیوں کے حوالے سے مشہور تھے،انہوں نے سب سے زیادہ آثارِ قدیمہ کے مقامات اور یادگاریں چھوڑیں۔

600 عیسوی کے اوائل میں اسلامی دور کا آغاز ہوا، جس میں اردن نے کئی اہم جنگیں دیکھیں، جیسے کہ معرکہ مؤتہ اور یرموک۔
اسلامی دور کا آغاز:
اللّٰہ کے آخری نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک سفیر کو شہید کرنے کی پاداش میں پہلی مہم آپ صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے خود ہی مؤتہ پر سن آٹھ ہجری میں روانہ فرمائی۔
دوسری مہم اللّٰہ کے رسول نے گیارہ ہجری میں روانہ فرمائی۔
پھر پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر نے جو پانچ بہادر محاذِ قیصر پروانہ فرمائے تھے ان میں حضرت شرحبیل بن حسنہ قریشی فاتحِ اردن ہوئے۔جھیل طبریہ کے سرسبز میدانوں میں قیصر روم کی فوجوں نے مسلمانوں کی طرف دریا اور نہریں کھود کر دلدل بنا دی اور آدھی رات کو اچانک بھر پور حملہ کر دیا لیکن ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئےجب مسلمانوں کو تیار پایا کیونکہ سب تہجد اور دعا میں راتیں جاگتے تھے۔ اسی معرکہ فحل یا بیسان میں اردن کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا۔

جدید دور

اموی اور عباسی خلافت نے اس علاقے میں اہم تعمیرات کیں۔
عثمانی سلطنت (1516-1918) کے خاتمے کے بعد کے حالات:
1924ء میں خلافت کے سقوط سے اردن بھی بہت سے اسلامی ممالک کی طرح ایک کالونی بن گیا۔1916ء کی بدنام زمانہ سائکس پیکٹ ڈیل میں جس کی 2016ء میں سنچری منائی جا رہی تھی عراق،اردن،فلسطین اور مصر انگریز نے لائنز شیئر کہہ کر سلطنت عثمانیہ سے لے لئے اور بلاد شام بادل نخواستہ دوسرے گرگ فرنچ کو ہبہ کردیا۔فلسطین تو یہود کے حوالے کر دیا، اردن کو دوسری جنگ عظیم کے بعد سنبھال نہ سکے ، چھوڑ گئے۔
اردن میں موجودہ دور کی شروعات ہوئی، جب ہاشمی حکمرانی کا آغاز ہوا۔شاہِ اردن عبداللّٰہ ا (1882ء تا 1951ء)نے ہمت کر کے 1949ء میں بیت المقدس یہود سے چھڑالیا۔ 1967ء میں یہود نے چھین لیا تب سے قبلہ اول مسلمان کے ہاتھ سے گیا۔ اب دریائے اردن سرحد ہے۔ یہود نے پورا خطہ دھونس اور دباؤ میں لے رکھا ہے۔

شرق الاوسط کا امن پائیدار نہیں۔ آج، اردن کی تاریخ اس کی ثقافتی ورثے اور مختلف تہذیبوں کے اثرات کی عکاسی کرتی ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں