ایک صحتمند معاشرہ ذہنی طورپر صحتمند افرادسے قائم ہوتاہے کیونکہبیمارافرادپر مشتمل معاشرہ بیمار قوم کو جنم دیتی ہے۔ڈاکٹر خالد عراقی
جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر خالد محمودعراقی نے کہا کہ ملازمین کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ اور ذہنی تناؤ سے نجات کے لئے سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔ایک صحتمند معاشرہ ذہنی طورپر صحتمند افرادسے قائم ہوتاہے کیونکہبیمارافرادپر مشتمل معاشرہ بیمار قوم کو جنم دیتی ہے۔ہمارے معاشرے میں ماہر نفسیات کے پاس جانے کو معیوب سمجھاجاتاہے اور علاج کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔لوگوں میں یہ شعورپیداکرنے کی ضرورت ہے کہ نفسیاتی مرض کوئی عیب نہیں بلکہ قابل علاج اور دیگر جسمانی امراض کی طرح اس کا بھی علاج ضروری ہوتاہے۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے شعبہ نفسیات جامعہ کراچی کے زیر اہتمام ذہنی صحت کے عالمی دن کے موقع پر منعقدہ کمیونٹی آگاہی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیاجس کا اہتمام چائنیزٹیچرز میموریل آڈیٹوریم کیا گیا۔تقریب میں جامعہ کراچی کے مختلف شعبہ جات کے اساتذہ اورطلبہ کی کثیر تعدادنے شرکت کی۔
اس موقع پر انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ (آئی اوبی ایم) کی ڈاکٹر نادیہ ایوب نے کہا کہ دنیا کی تقریباً 60 فیصد آبادی برسرروزگارہے،تمام ورکرز کو کام پر محفوظ اور صحت مند ماحول کا حق حاصل ہے۔ محفوظ اور صحت مند کام کے ماحول سے تناؤ، تنازعات کو کم کرنے اور کام کی کارکردگی کو بہتربنایاجاسکتاہے جبکہ اس کے برعکس کام پر موثر ڈھانچے اور معاونت کی کمی کسی شخص کی اپنے کام سے لطف اندوز ہونے اور اپنا کام بخوبی انجام دینے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتا ہے۔۔ نصف سے زیادہ عالمی افرادی قوت غیر رسمی معیشت (انفارمل اکانومی)میں کام کرتی ہے، جہاں صحت اور حفاظت کے لیے کوئی ریگولیٹری تحفظ نہیں ہے۔یہ ورکرز اکثر غیر محفوظ کام کرنے والے ماحول میں طویل وقت تک کام کرتے ہیں، سماجی یا مالی تحفظات تک بہت کم یا کوئی رسائی نہیں رکھتے اور امتیازی سلوک کا سامنا کرتے ہیں اور یہ سب ذہنی صحت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر نادیہ ایوب نے مزید کہا کہ مینٹل ہیلتھ کی وجوہات میں ساتھیوں یاادارے کی جانب سے محدود حمایت،تشدد، ہراسانی، غنڈہ گردی،امتیازی سلوک اور اخراج،کم یا زیادہ پروموشن ملازمت میں عدم تحفظ، ناکافی تنخواہ ودیگر شامل ہیں۔معاشی کساد بازاری یا انسانی اور صحت عامہ کی ہنگامی صورتحال سے ملازمتوں میں کمی، مالی عدم استحکام، روزگار کے مواقع میں کمی یا بے روزگاری میں اضافہ جیسے خطرات پیدا ہوتے ہیں۔
صدرشعبہ نفسیات جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر انیلا امبر ملک نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او دماغی صحت اور کام کے درمیان اہم تعلق کو اجاگرکرتاہے کیونکہ ایک محفوظ اور صحتمند ماحول دماغی صحت کے لئے حفاظتی عوامل کے طور پر کام کرسکتاہے جبکہ غیر صحت مند حالات بشمول امتیازی سلوک، ہراسانی اور دیگر ناقص حالات کی وجہ سے دماغی صحت اور زندگی کے مجموعی معیار کو متاثر کرنے والے اہم خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔کام کی جگہ پر دماغی صحت کو سپورٹ کرنا اب اچھا نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے۔
اس موقع پر دیگرمقررین جن میں ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف کلینکل سائیکولوجی جامعہ کراچی ڈاکٹر عظمیٰ علی،شعبہ نفسیات جامعہ کراچی کی سابق صدرشعبہ پروفیسرڈاکٹر فرح اقبال اور پروفیسرڈاکٹر قدسیہ طارق،سینئر آنکولوجسٹ اینڈ ریڈیولوجسٹ ڈاکٹر محمد علی میمن،اداکارہ لیلیٰ واسطی ودیگر نے بھی خطاب کیا۔