ہمارا؛ دورۂ حدیث کا سال تھا۔ استاذِ محترم حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم؛ ملائشیا کے سفر سے واپس تشریف لائے، کلاس کے کچھ ساتھیوں کے بار بار درخواست پر استاذِ محترم نے ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کے ساتھ ملاقات کی روئیداد سنائی، فرمایا:
"جب ہم ملائشیا پہنچے تو ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے فون کیا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی، چونکہ میرا بھی عرصے سے ان سے ملاقات کا ارادہ تھا لیکن وقت نہیں مل سکا، اب کے بار بھی مصروفیت زیادہ تھی اس لئے میں نے ان کے ہاں حاضری سے معذرت کی البتہ ایک دوست کے مکان کا ایڈریس ارسال کیا کہ آپ وہاں تشریف لاسکتے ہیں تو میں بھی وہی پہ حاضر ہو جاؤں گا۔
وقتِ مقررہ پر ہم اس مکان پر پہنچے، ڈاکٹر صاحب بھی تشریف لائے تھے، ابتدائی ملاقات میں؛ میں نے ان کے ساتھ ہمدردی اور افسوس کا اظہار کیا کہ ہندوستانی حکومت نے ان کی شہریت ختم کردی، انہی باتوں میں؛ میں نے ان سے کہا کہ کھانے کے بعد میں آپ سے تنہائی میں بات کرنا چاہتا ہوں۔
کھانے کے بعد ہم دوسرے کمرے میں گئے، وہاں میں نے ان سے بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ عرصے سے میرے دل میں چند باتیں تھیں کہ آپ سے عرض کروں۔
میں سمجھتا ہوں کہ تقابلِ ادیان کے موضوع پہ آپ مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں اس لئے اگر کوئی مجھ سے کہے کہ عیسائیت پہ مجھ سے مباحثہ کرے تو میں یہی کہوں گا کہ اس موضوع پہ آپ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب سے مباحثہ کیجئے وہ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں (حالانکہ استاد جی کی ایک کتاب "عیسائیت کیا ہے؟” کافی مقبول کتاب ہے جس کو پڑھ کر کئی عیسائی اسلام قبول کرچکے ہیں)
آگے میں نے کہا کہ آپ اس لحاظ سے بھی مجھ سے بہتر ہیں کہ آپ کے ہاتھ پر کئی غیر مسلم اسلام قبول کر چکے ہیں، اسی طرح بین الاقوامی فورم پر اسلام کی تبلیغ کرنا آپ کی بہت بڑی خدمت ہے۔ (استاذ جی نے فرمایا کہ جب آپ کسی ایسے شخص سے بات کریں جن کی بعض باتیں درست ہوں اور بعض غلط؛ تو پہلے درست اور اتفاقی باتوں کا تذکرہ کریں، تاکہ ان کو محسوس ہو کہ آپ کو ان کی ذات سے عداوت نہیں ہے۔) لیکن چند باتیں ایسی ہیں جن میں؛ میں آپ کو غلطی پر سمجھتا ہوں، میں ان کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں۔
لیکن ان باتوں سے پہلے آپ یہ یاد رکھئے کہ جب کوئی بندہ اپنے متعلقہ میدان سے باہر قدم رکھتا ہے جس میدان میں ان کو مہارت نہ ہو بلکہ وہ اس کے تخصیصی موضوع سے باہر ہو تو اس میدان میں قدم رکھنے سے انسان ٹھوکریں کھاتا ہے، اور ان سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔ جس کے بسبب علمائے عصر ان کے خلاف ہوجاتے ہیں اور اپنی تقریر و تحریر میں لوگوں کو ان غلطیوں کی نشاندہی کراتے ہیں، انجامِ کار یہ شخص رفتہ رفتہ مٹ کر قصہ پارینہ بن جاتا ہے۔ اس لئے کوشش کیجئے کہ کوئی ایسا قدم مت اٹھائیے کہ جس کے طسبب جمہور علماء آپ کے خلاف ہو جائیں ورنہ آپ کا جو اصل میدان اور کام ہے وہ بھی متاثر ہوکر ختم ہوجائے گا۔ (استاذ جی نے اس دوران برصغیر کے کئی منحرف سوچ رکھنے والے مذہبی سکالرز کا تذکرہ فرمایا کہ اپنے میدان سے نکل کر انہوں نے کتنی غلطیاں کی اور انجام کیا ہوا)
فرمایا: میں نے ان سے کہا کہ فقہ آپ کا اصل میدان نہیں، آپ نے جب فقہی مسائل چھیڑے تو آپ سے کئی غلطیاں سرزد ہوئیں۔ جس کے بنا پر جمہور علماء نے آپ کی غلطیوں کی نشاندہی کر کے آپ سے اختلاف کا اظہار کیا، نتیجہ یہ ہوا کہ عوام کی نظر میں آپ کی شخصیت متنازع بن گئی، اس لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ تقابلِ ادیان پہ اپنا کام جاری رکھئے اور جس موضوع پہ عبور نہ ہو اس کو موضوعِ سخن مت بنائیے۔
استاذ جی نے فرمایا: میں نے مناظرانہ انداز میں ان سے بات نہیں کی بلکہ خیرخواہانہ انداز اور نیت سے ان سے بات کی تو ان پہ اتنا اثر ہوا کہ مجھ سے معافی مانگنے لگے کہ میں نے تو آپ کے بارے میں بھی کچھ نامناسب باتیں کی ہیں، میں نے کہا کہ میں اپنی ذات کے بارے میں آپ سے نالاں نہیں ہوں۔ (فرمایا حالانکہ مجھے وہ بیانات مل چکے تھے لیکن میں نے ان کا تذکرہ مناسب نہیں سمجھا بلکہ انہوں نے خود ہی تذکرہ کیا)
وہاں انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا اور مجھ سے رابطہ نمبر لے کر وقتا فوقتا رابطہ کرتے رہے، اگلے روز ایک مسجد میں ہم نے جمعہ پڑھایا، جب باہر نکلے تو مسجد کے سامنے ڈاکٹر صاحب کھڑے تھے۔ میں نے پوچھا آپ یہاں کیسے پہنچے؟ فرمایا بس ویسے ہی آپ سے ملاقات کا دل کرتا رہا اس لئے آیا ہوں۔
استاذ جی نے فرمایا: جب میری واپسی تھی تو دیکھا کہ ائیر پورٹ پر بھی کھڑے میرا انتظار کر رہے تھے، اور یہی کہا کہ جی نے چاہا کہ آپ سے آخری ملاقات بھی ہوجائے۔فرمایا: اب بھی ان کا پیغام آتا رہتا ہے۔
تحریر لکھنےوالے فاضل صاحب آخر میں لکھتے ہیں:
اس مکالمے کو اس لیئے یہاں شیئر کر رہا ہوں کہ شاید آج کل کی نفرت زدہ فضاؤں میں اس مکالمے سے کسی کو محبت کی خوشبو ملے اور بات کرنے کا سلیقہ آئے، مکالمے کو میں نے اپنے الفاظ اور اپنی یاد یاداشت سے لکھا ہے، کمی بیشی کا معترف ہوں۔