آج کے دن (21 ستمبر 1687ء {13/14 ذو القعدہ 1098ھ}) کی صبح کے اوائل میں مغل فوج نے سلطان اورنگزیب عالمگیر کی قیادت میں حیدرآباد کے گولکنڈہ قلعے پر 8 ماہ طویل محاصرے کے بعد کامیاب حملہ کیا۔
مغل فوج کی فتح سے مغل سلطنت کا جنوبی ہند میں رقبہ مزید وسیع ہو گیا، جس نے سلطان اورنگزیب کو دنیا کا سب سے طاقتور اور دولت مند بادشاہ بنا دیا۔
حیدرآباد دکن کا گول کنڈہ قلعہ کئی صدیوں کے بعد بھی اپنی شان و شوکت کے ساتھ ایستادہ ہے اور آسمانوں سے باتیں کرتا نظر آتا ہے۔ یہ قلعہ کئی حکم رانوں کے عروج اور زوال کا گواہ ہے۔ اس نے کئی راجہ اور ان کی سلطنتوں کو بستے، اجڑتے دیکھا اور ان میں سے اکثر کے لیے جائے امان اور ان کی پناہ گاہ ثابت ہوا۔
ہندوستان کا گول کنڈہ پانچ حکومتوں کا پاسدار رہا ہے۔ اس کی بنیاد کاکتیا سلطنت میں رکھی گئی تھی۔ بہمنی سلطنت کے فرماں رواؤں نے اس قلعے کو اپنایا اور قطب شاہی خاندان نے اسی قلعے میں اپنی بادشاہی کی بنیاد رکھی۔ اس پر مغلوں نے اپنا قبضہ جمایا اور دکن میں آصف جاہی خاندان کے آنے تک یہ قلعہ کھنڈر میں تبدیل ہوگیا۔
یہ قلعہ بالخصوص کاکتیا سلطنت کے زوال اور بہمنی سلطنت کے عروج کا گواہ ہے۔ اس نے سلطان محمد قلی قطب شاہ کی خودمختاری دیکھی اور جمشید قلی قطب شاہ کی عیّاری بھی۔ قلعہ گول کنڈہ یتیم محمد قلی قطب شاہ کے بچپن کا نگہبان رہا تو سلطان محمد قلی قطب شاہ کا حامی بھی۔
قلعہ گول کنڈہ اپنے طرزِ تعمیر کے ساتھ منفرد اور دل کش بھی ہے اور جدید دور میں ترقی یافتہ انسانوں کے لیے تاریخ کی ایک ایسی خستہ کتاب بھی جس میں کسی سلطنت اور ریاست کے سیاسی اور عسکری امور اور نظام و طرزِ حکومت کی جھلک بھی دیکھی جاسکتی ہے۔
جنوبی ہندوستان کی ریاست تلنگانہ کے شہر حیدر آباد(دکن) کا یہ قلعہ قطب شاہی سلطنت کا پایۂ تخت رہا ہے جس کی بنیاد دست یاب معلومات کے مطابق 1143ء میں کاکتیا سلطنت کے راجہ نے رکھی تھی۔ اس کے بعد بہمنی سلطنت قائم ہوئی توا یہ گول کنڈہ قلعہ ان کے کام آیا۔ اور پھر بہمنی سلطنت کے زوال پر علاقہ گول کنڈہ کے گورنر سلطان قلی قطب شاہ نے اپنی خود مختاری کا اعلان کرتے ہوئے اس قلعے کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ قطب شاہی حکومت کم و بیش ایک سو اسّی سال تک قائم رہی۔ محمد قلی قطب شاہ کا دور اپنی ادبی سرگرمیوں، علمی کاوشوں کی وجہ سے یادگار ہے جس میں ملّا وجہی اور احمد گجراتی جیسے شعراء منظرِ عام پر آئے۔
گول کنڈہ قلعہ تین قطب شاہی ادوار کو دیکھتے ہوئے پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ یہ قلعہ تین کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اس کا صرف ایک صدر دروازہ ہے۔ اس دروازے کی اوپری سطح فولاد سے بنی ہوئی ہے اور اس کا دروازہ ساگوان کی لکڑی سے بنا ہوا ہے۔ اس دروازے کے سامنے ایک دیوار بطور رکاوٹ بنائی گئی تھی تاکہ حملہ آور اندر آسانی سے داخل نہ ہوسکیں۔
صدر دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی بائیں جانب دو منزلہ عمارت نظر آئے گی جسے کبھی بطور اسلحہ خانہ استعمال کیا جاتا ہو گا۔ تاریخی کتب کے مطابق 150 کمروں پر مشتمل اس عمارت میں سپاہیوں کے ہتھیار اور گولہ بارود رکھا جاتا تھا۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ گول کنڈہ ہیروں کے کاروبار کے لیے مشہور تھا۔ مؤرخین کے مطابق صدر دروازے کے دائیں جانب، ایک تہ خانے نما عمارت شاہانِ وقت کی وفات کے بعد ان کے غسل کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ یہاں ایک سرنگ بھی موجود ہے جس سے سیدھا ساتویں گنبد تک پہنچا جاسکتا ہے۔ خیال ہے کہ اسی سرنگ سے جنازے کو آگے لے جایا جاتا تھا۔
اس قلعے کی اہم خصوصیت اس کا نظامِ آب رسانی ہے۔ قلعے کے نیچے کے حصے میں تین حوض بنے ہوئے ہیں جن کا پانی اوپر تک پہنچایا جاتا تھا۔
قلعے میں ایک مسجد ہے جو دو میناروں کے ساتھ ابراہیم قطب شاہ نے بنوائی تھی۔ کہتے ہیں کہ اسی کے نقشے کو دیکھ کر اس کے بیٹے محمد قلی قطب شاہ نے چار مینار بنوایا تھا جو حیدرآباد شہر کی پہچان اور دنیا بھر میں مشہور ہے۔
قلعہ گول کنڈہ میں ایک مقام فن اور ثقافت سے متعلق سرگرمیوں اور تفریح کے لیے مخصوص تھا جب کہ ایک ہال کے بارے میں مؤرخین لکھتے ہیں کہ یہاں بیٹھ کر بادشاہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرتا تھا۔ اس قلعہ میں کئی مہمان خانے بھی بنائے گئے تھے۔
آج کے بھارت کا یہ تاریخی اور ثقافتی ورثہ اگرچہ خستہ حالی کا شکار ہے، مگر قلعہ گول کنڈہ کا رخ کرنے والے اس کے بنیادی ڈھانچے سے قلعہ کی شان و شوکت اور اندر موجود عمارتوں سے اس دور کے طرزِ تعمیر کے ساتھ اس زمانے کے طرزِ حکومت اور ان کے انتظامی امور کا اندازہ کرسکتے ہیں۔
(ماخوذ از تاریخِ دکن)