استقبال:
مانچیسٹر انٹرنیشنل ائرپورٹ سے باہر نکلتے ہی ہلکی بارش میں برطانیہ کے تیسرے بڑے شہر کی اَبر آلود فضاؤں کو دیکھا تو دل نے ایک آہ بھری کہ وہ عظیم سلطنت جس پر کبھی سورج غروب نہ ہوتا تھا آج سورج طلوع ہونے کو ترستی ہے۔اس احساس نے رب تعالی کی وحدانیت پر یقین بڑھا دیا اور قرآن کا وہ آفاقی حکم وتلک الایام نداولھا بین الناس یاد آیا کہ یہ تو دنوں کا ہیر پھیر ہے کہ اس دنیا میں کسی عروج کو دوام حاصل نہیں۔
ائرپورٹ سے نکلتے نکلتے فجر کا وقت نکل چکا تھا۔ باہر نکلا تو اپنے میزبان کو استقبال کے لئے موجود پایا۔ گرمجوشی سے گلے لگانے کے بعد زبردستی مجھ سے بیگ لیا اور پارکنگ کی جانب چل دیے۔
ہلکی ہلکی بارش میں ہم پارکنگ میں پہنچے اور گھر کی راہ لی۔
والد محترم کے دوست اور چاہنے والوں کا یہ والہانہ انداز بلاشبہ ابو جان کی تعلق داری اور محبت کی عکاسی کر رہا تھا۔ وہ جنہیں مجھے انکل کہہ کر پکارنا تھا ان کی اس بے تکلفی سے بھائی میں بدل گیا۔
گھر پہنچے تو ایک انتہائی پُر تکلف ناشتہ ہمارا منتظر تھا۔ کئی ایک کھانے اور اشیاء ناشتے میں چُن دی گئی تھیں۔ دیار مغرب میں پہلا جملہ جو اہل مغرب کے متعلق سننے کو ملا وہ یہ تھا کہ جناب کھل کر کھائیے یہاں ہر چیز خالص ملتی ہے۔ جو تعریف کسی کی چیز کی لکھی ہے ڈبے میں بعینہ وہی ہوگا۔۔۔شہد، دودھ، دہی، آٹا ہر چیز یہاں خالص ملتی ہے۔
ان کی بات دل چیرتی ہوئی نکل گئی کہ یہ تصویر تو ہمارے معاشرے کی ہونی چاہئے تھی کہ جہاں بسنے والوں کے لئے تو سچ بولنا بھی عبادت ہے اور جہاں ملاوٹ کرنے والے کے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ من غش فلیس منا تو کیا یہ اب ہمارے بجائے اہل مغرب کے یہاں ملنے لگی ہے کہ ہمارے معاشرے تو جھوٹ اور دھوکے کا گھر بن چکے ہیں، جہاں دودھ میں نہ صرف پانی ملایا جاتا ہے بلکہ نہ جانے کون کون سے کیمیکل ہم اپنے بچوں کو پلا رہے ہیں۔ اسی طرح دیگر اشیائے خوردونوش ہوں یا برتنے کا کوئی سامان ہر کسی میں ہمارے یہاں ملاوٹ کیا جانا ایک عمومی رویہ ہے۔ ایسے میں مسلم معاشروں بالخصوص پاکستان کا دنیا کے لئے ایک مثال بننا تو درکنار اہل پاکستان کی طرف نرمی سے دیکھا جانا بھی دشوار معلوم ہوتا ہے۔ جہاں اس وقت اہل پاکستان نے دنیا میں بہت سی جگہ پر اپنا لوہا منوایا ہے وہاں اکثریت ان کی ہے جنہوں نے اپنی قوم کو بدنام ہی کروایا ہے۔ گلف یا یورپ تو بہت بڑی بات ہے اب تو وہ چھوٹے ممالک کہ جن کا نام بھی دنیا کے نقشے پر ڈھونڈے سے ملے وہ بھی پاکستان کو ویزہ دینے سے انکاری ہیں۔
میزبان کی جانب سے ناشتے کی میز پر پہلے ہی مکالمے میں اہل مغرب کی اس تعریف نے مجھے اور بھی چوکنا کر دیا اور ارادہ کیا کہ اس سفر میں کے بہترین حاصلات یہی ہوں گے کہ اس غالب قوم کے ایجابیات اور سلبیات کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے اور ان سے اسباق کا حصول کیا جائے۔
مساجد-جائے امان:
کم و بیش چوبیس گھنٹے سفر کے بعد سیر ہوکر ناشتہ کیا تو نماز ظہرتک آرام کر کے قریبی مسجد میں نماز کے بعد علاقے کی سیر کے لئے نکلنا طے پایا گیا۔ مناسب نیند لینے کے بعد اس وقت اٹھایا گیا جب نماز کا وقت قریب تھا۔ ہم ادائیگی کے لئے قریبی مسجد گئے تو وہاں کے انتظام و انصرام نے دل موہ لیا۔
داخل ہوتے ہی ایک جانب کچھ حصہ مختلف امور کے لئے مختص کیا گیا تھا۔ قرینے سے جوتے اتارنے اور لکڑی کے ریک میں رکھنے کا انتظام ایک طرف جبکہ اس کے سامنے فوڈ بینک کے لئے جگہ موجود تھی۔ فوڈ بینک کا قیام یہاں قریبا ہر مسجدمیں موجود پایا کہ جہاں متمول اہل ایمان اپنے گھروں سے کچھ نہ کچھ کھانے پینے کی اشیاء لا کر رکھ دیتے ہیں اور دیگر مسلمان اپنی سہولت کے بقدر وہاں سے کھانا اٹھا لیتے ہیں اور اس میں مسلم یا غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں کہ اگر کوئی غریب غیر مسلم بھی کھانے کی طلب رکھتا ہو تو نماز کے اوقات میں وہ مسجد سے بھوکا ہرگز نہ جائے۔ یوں ان لوگوں کے لئے بہت آسانی ہوجاتی ہے جو کام کی غرض سے مختلف ملکوں سے یہاں ہجرت کر آئے ہیں کہ آتے ہی کھانے کے بنیادی خرچ سے آزاد ہوجاتے ہیں۔
جوتوں کے ریکس اور فوڈ بینک سے ملحقہ وضو خانے میں حضور ص کے حکم الطہور شطر الایمان کی عملی عکاسی دیکھی۔ بیت الخلا اور وضو خانے کی بہترین صفائی کے علاوہ ضرورت کی تمام اشیاءوہاں موجود پائیں۔
مسجد کیا وہ تو ایک پورا ایجوکیشنل کمپلیکس ہی تھا جس میں نماز کے ہال تک جاتے دائیں اور بائیں مختلف کلاس روم ہالز اور لائبریری موجود تھی۔ یہ جان کر اور بھی مسرت ہوئی کہ وہ عمارت پہلے ایک چرچ تھی جسے کسی مسلمان نے خرید کر مسجد میں بدل ڈالا تھا۔ برطانیہ میں جابجا آپ کو مساجد نظر آئیں گی اور اگر گوگل میپ پر مساجد کی تلاش کریں تو ڈھیر مساجد نقشہ پر چمکنے لگتی ہیں اور خوشگوار حیرت ہوتی جب معلوم ہوتا کہ اکثر مساجد چرچ سے تبدیل ہوئی ہیں اس لئے کہ بڑھتے ہوئے مذہب بیزار الحادی معاشرے میں اب فقط نام کے عیسائی باقی رہ گئے ہیں تبھی چرچ انتظامیہ کلیسا کی آبادکاری پر خرچ کی بجائے بہتر سمجھتی ہے کہ انہیں کرایہ پر دے دیا جائے یا فروخت کردیا جائے اور بحمداللہ ایسے متمول دین سے محبت کرنے والوں کی کمی نہیں جو فورا اسے خریدنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔
برطانیہ میں موجود مساجد کو جائے نماز کہنے سے زیادہ جائے امان کہنا زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے کہ وہاں مساجد محض نماز کے لئے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے جملہ امور میں تعاون اور راہنمائی لئے کام کرتی نظر آتی ہیں۔ جیسے کہ پورا رمضان سحر و افطار میں مفت دستر خوان کا اہتمام ہوتا ہے۔ ہفتہ وار کلاسز برائے طلبہ و طالبات اور برائے والدین بھی باقاعدگی سے ہوتی ہیں۔ قرآن کلاسز،تفاسیر کورسز اور بعض میں سنڈے سکول بھی لگتا ہے۔ بچوں کے لئے سمر کیمپ وغیرہ جیسی سرگرمیاں زیادہ ہیں تاکہ انہیں مسجد سے جوڑا جا سکے۔ مساجد بالکل ایک گھر جیسا ماحول دے رہی ہیں۔
ایک صاحب کا واقعہ سننے کو ملا کہ جن کو کسی سبب سے جائے پناہ درکار تھی تو وہ اہلیہ کے ہمراہ مسجد آگئے جہاں سے ایک نمازی انہیں گھر لے گئے اور کم و بیش دس دن اپنے یہاں مہمان رکھا جب تک کہ معاملہ حل نہ ہوا۔ اسی طرح تقریبات نکاح کا مسجد میں ہونا اپنے دین سے جڑے رہنے کی علامت ہے۔ یہاں بچوں کے مساجد میں کھیلنے پر بھی کوئی پابندی نہیں بلکہ جہاں میسر آسکا وہاں مساجد میں بچوں کے لئے پلے ایریا مختص کر رکھا ہے کہ بچے وہاں چھوڑ کر والدین تسلی سے نماز پڑھ سکیں۔ پھر یہ مساجد اس قدر سادہ مگر خوبصورت بنائی گئی ہیں کہ وہاں پہروں بیٹھے رہنے کا دل کرے۔بعد ازاں مسلمان خاندان اپنے جوان بیٹوں اور بیٹیوں کے اچھے رشتوں کے لئے بھی انہی مساجد کا رخ کرتے نظر آتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والوں کے لئے الگ سے یہ مساجد اپنا دامن محبت پھیلائے رکھتی ہیں جس سے اسلام اور اہل اسلام کا خوبصورت تاثر ملتا ہے۔ بالعموم جتنی مساجد میں نماز کا موقع ملا سب میں ہی انتہائ خوش الحان قرأ کا تقرر ملا جن کی اقتدا میں نماز ادا کرکے عجب روحانی سکون ملا۔
اس کے برعکس اپنے معاشروں کا موازنہ کیا جائے تو دل شکستہ ہوتے ہیں گو کہ ہر جگہ ایک سی حالت نہیں مگر اکثر مقامات پر ہمارے یہاں مساجد جائے نماز و جائے امان نہیں بلکہ جائے شقاق ہیں۔ جوڑنے کی بجائے انقسام کا رویہ اختیار کی جاتا ہے، بچوں کے لئے ایک بزرگ کی صورت میں خدائی فوجدار تو ہر مسجد میں موجود ہوتا ہے جو کسی طور بچوں کو مسجد میں دل لگانے نہیں دیتا۔ ڈانٹ ڈپٹ ، الجھاؤ، تنازع ہر دوسری مسجد کا لازمی جزو بن چکا ہے۔ مسجد پناہ گاہیں کبھی ہوا کرتی تھیں اب تو اس قدر سختی کر دی گئی ہے کہ چند لمحے آرام کرنے یا سستانے کی غرض سے بھی نہیں بیٹھا جاسکتا۔ بعض مساجد نے تو یہ تک لکھ کر لگا رکھا ہے کہ سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دور نبوت میں مسجد نبوی خود ایک سیاسی مرکز ہوا کرتا تھا جہاں تمام قومی و بین الاقوامی امور کے فیصلے ہوا کرتے تھے۔ جو مسلمانوں کا فوجی ہیڈکوارٹر تھا جہاں سے پوری دنیا کی جانب لشکر مُشَکَّل ہوتے تھے حتی کہ فوجی مشقیں اور تیراندازی کے مقابلے بھی مسجد نبوی کے صحن میں ہوا کرتے تھے۔ غزوات و سرایا کے زخمیوں کے لئے اسی مسجد میں علاج کے لئے خیمے لگائے جاتے تھے۔ بین الاقوامی وفود سے تمام مکالمے یہاں ہی ہوتے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وزارت داخلہ و خارجہ کا مرکز بھی مسجد ہوا کرتا تھا۔ صحابہ کے نکاح بھی یہیں ہوتے تو اس اعتبار سے تو یہ میرج ہال اور کمیونٹی سینٹر کا بھی کام سرانجام دیتا تھا۔ اور تو اور مساجد مسافروں کے لئے بہترین ٹھکانہ ہوتی تھی اور یہ فکر کسی مسافر کو کبھی دامن گیر ہوئی ہی نہ تھی کہ دورانِ سفر قیام کہاں ہوگا اور طعام کا انتظام کیسے ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مساجد کا اصل مقام انہیں دلایا جائے اور یہ اہل ایمان کی قوت، اجتماع اور شوکت کی مظاہر بنیں۔ مساجد سے حکومت کے فیصلے ہوں اور حاکم وقت اور دیگر حکومتی عہدیداران امامت کا فریضہ سرانجام دیں۔ یہ سب اور بہت سے دیگر انقلابی اقدامات کئے جائیں تاکہ مذہب سے نکل کر اسلام کو بطور دین معاشرے میں پذیرائی و قبولیت عام حاصل ہو۔ اگر حاکم وقت یہ ذمہ داری ادا کرنے کے اہل نہ ہوں تو پھر اقتدار و انتظام ان کے سپرد کر دیا جائے جن کے متعلق قرآن نے واضح راہ نمائی کی ہے۔
الذين إن مكناهم في الأرض أقاموا الصلاة وآتوا الزكاة وأمروابالمعروف ونهوا عن المنكر ۗ
(جاری ہے)