منگل, فروری 4, 2025

بے نظیر جو حقیقت میں بے نظیرتھی

تحریر: لالہ عبدالرحیم

دخترِمشرق کو ہم سے جدا ہوئے _17برس بیت گئے،محترمہ ریاست کے اعلیٰ منصب اور اپنے چاہنے والوں کے دلوں تک پہنچنے کے لئے ان تمام خارزاروں سے گزری تھیں جو غیر متزلزل قلب و ذہن کے مالک کو تجربات کی بھٹی سے گزار کر کندن بنادیتے ہیں،

دنیا عالم کے ایلک عظیم لیڈر و محسن پاکستان جناب زوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو21جون 1953 کو کراچی میں میں پیدا ہوئی، پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے آنگن میں آنکھ کھولنے والی پنکی ملکی سیاست کا ایک چمکتا دمکتا درخشاں ستارہ بن کرابھری ۔ جسے دنیا نے تسلیم کیا کہ شہید بی بی کاصرف نام ہی نہیں ان کے کارنامے بھی بے نظیر اور ہمیشہ یاد رکھنے والے تھے ۔ شہید بی بی نے جب جوانی میں قدم رکھا تواعلی تعلیم کے لیے برطانیہ اور امریکہ کا انتخاب کیا ۔ محترمہ بے نظیربھٹوصاحبہ دنیا کی واحد خاتون لیڈر تھی جس نے تعلیمی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے ساتھ سیاسی میدان میں بھی کمال جوہر دکھائے۔

اپنے والد بزرگوارجناب ذوالفقار علی بھٹو کی قید سے لے کر پھانسی تک آمریت کے دور میں بینظیر بھٹو نے ہر مصیبت اور مشکل کا ثابت قدمی اوربہادری سے مقابلہ کیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے کراچی آکسفورڈ اور اور ہاوورڈ یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ،یہ چار اپریل1979کی بات ہے جب انہیں اپنے والد زوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد صرف 25برس کی عمر میں پاکستان پیپلزپارٹی کی شریک چیئرمین بنایاگیا جہاں یہ سب کچھ اچانک تھا وہاں پریہ وقت بہت ہی کٹھن تھا کیونکہ یہ جنرل ضیاکا بدترین اور بھیانک دور تھاضیاکے آمرانہ دور نے انہیں کئی سال تک نظر بند کیے رکھا صرف یہ ہی جبرنہ تھابلکہ
انہیں جبری طورپر ملک چھوڑنے پر مجبورکیا گیا۔ تاریخ اٹھاکر دیکھیِ توآپ کو معلوم ہوگا کہ کونسا ایسا ظلم نہیں تھا جو ان پر ڈھایا نہ گیاہو، دور جلاوطنی میں بھی انہوں نے اپنی پارٹی کی قیادت کی اور ثابت قدمی کے ساتھ والد کے نقش قدم پر چلتی رہی
،جب پاکستان میں ایک بھیانک دور یعنی ضیا کے مارشل لا کا خاتمہ ہوا تو 10اپریل 1986کو جلاوطنی کاٹ کر لاہور پہنچی جہاں پرکارکنوں نے اپنی عظیم لیڈر کا تاریخی ووالہانہ استقبال کیا ۔ 18دسمبر 1987کو آصف علی زرداری سے محترمہ کی شادی ہوئی ، جس کے بعد 16نومبر1988کوجب عام انتخابات منعقد ہوئے تو یہ وہ دن تھا جب پاکستان پیپلزپارٹی اس ملک کی سب سے زیادہ اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی بن چکی تھی جس کے نتیجے میں وہ 1988کو پاکستان اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں ۔ تاہم ان کی حکومت زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکی اور 20ماہ بعد ہی ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔6 / اگست 1990 کو صدر غلام اسحاق خان نے بدعنوانی کا جھوٹا الزام عائد کرکے انہیں وزارت عظمی سے برطرف کردیا ۔ 1990 سے 1993 تک وہ قائد حزب اختلاف کا فریضہ انجام دیتی رہیں اور 1993 میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں وہ ایک مرتبہ پھر وزیراعظم منتخب ہوگئیں ۔ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے بعد وہ دوسری شخصیت تھیں جو دوسری مرتبہ وزارت عظمی کے عہدے پر فائز ہوئی تھیں ۔ 5 / نومبر 1996 کو انہی کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر پاکستان سردار فاروق احمد لغاری نے ان کی حکومت کو سازشیوں کے ساتھ ملکر برطرف کردیا ۔ سازشی عناصر بھٹو کی بیٹی سے خوفزدہ تھے اور ان کی پارٹی کو ختم کرنے کے درپہ تھے ان ہی چیرہ دستوں کی وجہ سے1997 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ 15 اپریل 1999 کو لاہور ہائی کورٹ نے انہیں نواز شریف حکومت کے قائم کردہ مقدمات میں پانچ سال کی سزا سنائی ۔ اس وقت وہ دبئی میں مقیم تھیں اس لئے ان سزاوں سے محفوظ رہیں جبکہ ں کا مخالف ان کی شہرت اور عوامی مقبولیت سے خوفزدہ تھا مخالف یہ ہی چاہتاتھا کہ وہ ملکی سیاست سے دور رہیں لیکن وہ بہادر باپ کی بہادر بیٹی تھی شہیدو ں کی وارث تھی وہ ان گیڈر بھبکیوِں سے سے ڈرنے والی نہیں تھی ۔ 2002 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی نے پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے نام سے انتخابات میں حصہ لیا اور ملک میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تاہم چونکہ ان کی پارٹی کی نشستوں کی تعداد، پاکستان مسلم لیگ (ق)کی نشستوں سے کم تھی، اس لئے انہوں نے حزب اختلاف میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اس دوران مستقل دبئی میں ہی مقیم رہیں ۔ 14 مئی 2006 کو انہوں نے ملک میں آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کے قیام کے لئے اپنے سیاسی حریف میاں محمد نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت کے معاہدے پر دستخط کئے ۔ 18 اکتوبر 2007 کو وہ آٹھ برس بعد وطن واپس لوٹیں مگر مشکلات تھی کی کٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی چیلنجز کا کبھی ختم نہ ہونے والا دود بڑھتاہی چلاجارہاتھا،ان کی وطن واپسی پر جیالے پھولے نہیں سمارہے تھے لاکھوں کا مجمع اپنی عظیم لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سڑکوں پر امنڈ آیاتھا ۔ قافلہ ائیرپورٹ سے براستہ کارساز گزررہاتھا، اس دوران ان کے جلوس پر ایک خودکش حملہ ہوا اس دھماکے سے لوگ دور نہیں بھاگے بلکہ محترمہ کی گاڑی کے اور قریب آگئے وہ موت سے ڈرنے کی بجائے وہ اپنے عظیم لیڈر کو خیروعافیت دیکھنا چاہتے تھے اور یہ ہی وجہ تھی کہ دوسرے دھماکے سے جانی نقصان پہلے دھماکے سے کہیں زیادہ ہوا ،لاشوں کے بیچوں بیچ زخمیوں کی یہ آوازیں سب نے سنی کہ” بی بی سلامت ہے نا انہیں کچھ ہوا تو نہیں ” کارکنوں اور لیڈر کے درمیان محبت کا یہ دیوانہ پن تاریخ کے سینے پر نقش ہوگیا،اس دھماکے میں کئی جیالے ایسے بھی شہید ہوئے جن کی شناخت کرنا بھی مشکل ہوگیا تھا یہ وہ جیالے تھے جنھوں نے اپنی ہستی کو مٹادیا تھا، لیکن دشمن تہیہ کرچکاتھا کہ وہ محترمہ بے نظیر کو ایک پل بھی سکون نہ لینے دے گایہ ہی وجہ تھی 27 دسمبر 2007 کو بینظیر بھٹو نے راولپنڈی کے مشہور لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کے بعد واپسی کے دوران کارکنوں کے نعروں کا جواب دینے کے لیے جیسے ہی گاڑی سے سر باہر نکالا تو پہلے سے ہی گھات لگائے کافر مردود بے رحم قاتل نے گولی چلا دی اور یوں قوم کی ہونہار و عظیم بیٹی ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سو گئیں ۔افسوس وہ لمحہ بھلانا نا ممکن سا ہے آج سترہ برس بعد بھی یہ کل ہی کی بات لگتی ہے خیر اگلے روز انہیں آہوں اور سسکیوں میں ان کے والد اور بھائیوں کے پہلو میں گڑھی خدا بخش، لاڑکانہ میں سپردخاک کردیا گیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت سنبھال لی اور محترمہ کے شوہر آصف علی زرداری پارٹی کے شریک چیئرمین بن گئے،کچھ باتیں محترمہ کی شہادت سے کچھ گھنٹوں پہلے ہونے والے واقعہ پر بھی لکھنا چاہونگا، جسے پڑھ کر لوگوں کو اندازہ ہوجائے گا کہ ایک لیڈر اور کارکن کے درمیان رشتہ کیا ہوتا ہے ،ایک تاریخی حوالے کے مطابق 26 دسمبر 2007کی رات جب بے نظیر بھٹو ایک لانگ ڈرائیوکے بعد اسلام آباد کے زرداری ہاوس پہنچی تو وہ بہت تھک چکی تھی اور آرام کرنا چاہتی تھی مگر اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ میجر جنرل ندیم تاج کا پیغام ان تک پہنچا کہ وہ ان سے ایک ضروری بات کے لیے ملنا چاہتے ہیں محترمہ بہت تھک چکی تھی اور چاہتی تھی کہ وہ دوگھنٹے سونے کے بعد میجر جنرل ندیم تاج سے ملاقات کرینگی،کہاجاتاہے کہ یہ ملاقات رات ڈیڑھ بجے ہوئی اس ملاقات میں محترمہ کے قریبی ساتھی اورمشیر رحمان ملک بھی موجود تھے میجر جنرل ندیم تاج نے انہیں بتایاکہ اس روز انہیں کوئی قتل کرنا چاہتاہے میجر جنرل نے اپنے زرائع سے ملنے والی معلومات پر محترمہ کو بہت سمجھانے کی کوشش کی معروف مصنف اوین بینیٹ جونز اپنی کتاب "دی بھٹو ڈائنیسٹی دی سٹرگل فار پاور ان پاکستان ” میں لکھتے ہیں کہ یہ سنتے ہی بے نظیر بھٹو کو شک ہوا کہ کہیں میجر جنرل ندیم تاج ان کے پروگرام کو منسوخ کرنے کے لیے دباو تو نہیں ڈال رہے انہوں نے میجر کو کہا کہ اگر آپ کو خود کش بمباروں کی اطلاع پر اتناہی یقین ہے تو پھر آپ انہیں گرفتارکیوں نہیں کرتے،میجر جنرل نے اس بات کا جواب کچھ یوں دیا کہ یہ ناممکن ہے کیونکہ اس عمل سے ان کے وسائل کا راز افشا ہوجائے گا ۔ اس پر محترمہ شہید کے وہ تاریخی الفاظ جس کی وجہ سے میں نے یہ قصہ بیان کیا ۔ محترمہ نے کہاکہ آپ میری سیکورٹی میں اضافہ کریں آپ نہ صرف میری بلکہ لوگوں کی سیکورٹی کو بھی یقینی بنائیں یعنی اس بہادر خاتون کو علم ہوچکا تھا کہ صبح ان کو شہید کردیا جائے گا مگر انہوں نے اپنی جان کی پروانہ کی بلکہ اپنے ساتھ اپنے چاہنے والوں کی سیکورٹی کا بھی بندوبست کرنے کا کہا،میں سمجھتاہوں کہ شاید کوئی ایسا لیڈر دنیامیں ایسا گزرا ہوں جو عزم وہمت کی ایسی مثالیں اپنے اندر رکھتاہو بے نظیر بھٹوشہید کی زندگی ایک مثالی زندگی ہے جو ایسی جدوجہد سے بھری پڑی ہے جسے پاکستان توکیا دنیاعالم کی تاریخوں میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسکhttps://alert.com.pk/
Alert News Network Your Voice, Our News "Alert News Network (ANN) is your reliable source for comprehensive coverage of Pakistan's social issues, including education, local governance, and religious affairs. We bring the stories that matter to you the most."
متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں