12 نومبر 1923ء پنجابی کے نامور شاعر اور فلمی نغمہ نگار احمد راہی کی تاریخ پیدائش ہے۔احمد راہی کا اصل نام غلام احمد تھا اور وہ امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔
1946ء میں ان کی ایک اردو نظم آخری ملاقات افکار میں شائع ہوئی جو ان کی پہچان بن گئی۔ اس کے بعد ان کا کلام برصغیر کے مختلف ادبی جرائد کی زینت بننے لگے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور میں قیام پذیر ہوئے اور ماہنامہ سویرا کے مدیر مقرر کئے گئے۔ 1953ء میں پنجابی زبان میں ان کا شعری مجموعہ ترنجن شائع ہوا جس نے ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی حاصل کی اور احمد راہی کا شمار جدید پنجابی نظم کے بانیوں میں ہونے لگا۔ کم و بیش اسی زمانے میں انہوں نے پنجابی فلموں میں نغمہ نگاری کا آغاز کیا۔ ان کی پہلی فلم بیلی تھی جس میں انہوں چار گیت لکھے تھے اور چاروں کے چاروں بہت خاصے مقبول ہوئے تھے اس کے بعد انہوں نے لاتعداد پنجابی فلموں کے لئے نغمات تحریر کئے جن میں شہری بابو، ماہی منڈا، پینگاں، چھومنتر، یکے والی ، پلکاں، گڈو، سہتی ، یار بیلی ، مفت بر، رشتہ، مہندی والے ہتھ، بھرجائی، اک پردیسی اک مٹیار، وچھوڑا، باڈی گارڈ، قسمت، ہیر رانجھا، مرزا جٹ، سسی پنوں، نکے ہوندیاں دا پیار، ناجو اور دل دیاں لگیاںکے نام سرفہرست تھے، اس کے علاوہ انہوں نے کئی اردو فلموں کے لئے بھی کئی نغمات تحریر کئے جن میں فلم آزاد، کلرک اور باجی کے نام شامل ہیں۔
احمد راہی کی دیگر تصانیف میں ان کے شعری مجموعے رت آئے رت جائے، رگ جاں اور فلمی نغمات کا مجموعہ نمی نمی وا شامل ہیں۔
احمد راہی نے متعدد ایوارڈز بھی حاصل کئے تھے جن میں سب سے بڑا ایوارڈ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی تھا جو انہیں 1997ء میںحکومت پاکستان نے عطا کیا تھا۔ احمد راہی کا انتقال 2 ستمبر 2002ء کو لاہور میں ہوا اور وہ لاہور ہی میں آسودۂ خاک ہوئے۔