Home بلاگ کرما اور دھرما کا فلسفہ

کرما اور دھرما کا فلسفہ

25

تحریر: فارینہ حیدر

فائز عیسیٰ صاحب  کراچی کے  وکیل ہیں بہت بڑی  اور بہت مہنگی لاء فرم  چلاتے ہیں،زیادہ تر سیاسی تنظیموں  کے مقدمے  لیتے ہیں یا تنظیموں کے سربراہان کے مقدمے لیتے ہیں ۔ہلکے آدمی کو منہ نہیں لگاتے ،  اپنے آباؤاجداد کو افغانستان کے پشتون بتاتے ہیں لیکن ان کی بیوی اور ان کی زاتی زمینیں جیکب آباد میں ہیں۔ اپنے آپ کو پکا سچا بلوچ سمجھتے ہیں اور بلوچوں کے حقوق  کے لیئے ہر فورم پر  آواز اٹھاتے ہیں اسی مناسبت سے  چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ  اپوائنٹ ہوئے ۔

یہ پاکستان کے شاید پہلے جج ہے جو ڈائیریکٹ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اپوائنٹ ہوئے.انھوں نے   پاکستان کے ہر صوبے  سے  اپنا کوئی نہ کوئی تعلق نکالا ہوا ہے ۔خیر جب یہ  سپریم کورٹ کے جج اپوائنٹ ہوئے تو اس کے کچھ عرصے بعد اثاثوں کی تفصیلات اور منی ٹریل نہ بتانے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کی انکوائری کھل گئی اور پھر ہوا  پاکستان  میں دمادم مست قلندر۔

پاکستان کے  ہر امیر آدمی کی طرح انھوں نے بھی اپنے اثاثے اپنی بیوی کے نام پر لکھے ، جس کا ان کو زبردست فائدہ ہوا ،پھر جو ان کی بیوی نے عورت کارڈ استعمال کیا اور  جو عام عورتوں کی شکایات  اپنے نام سے اوپر گھومائی  تو بڑے بڑے سورما دیکھ کر حیران رہ گئے ۔

ان کی بیوی کی کئی شکایتوں میں سے ایک شکایت یہ  بھی تھی کہ  ایجنسیاں ہمارا پیچھا  کرتی ہے  ہماری فون کالز ٹیپ کرتی ہے ہماری  تو اپنی کوئی زندگی نہیں رہی میرے بچوں  کا پیچھا کرتی ہیں ، یہ پیسہ مجھے میرے والد سے ملا ہے وغیرہ وغیرہ ۔

اچھا پاکستانی بہت  معصوم ہیں، سارے کھڑے ہوگئے کہ ہائے عورت کی  پرائیویسی کوئی پردہ نہیں چھوڑا ان کی چوکیداری ہوتی ہے، ان کی بچوں کی چوکیداری ہوتی ہے ۔

ہماری اسٹیبلشمنٹ نے  شریفوں کا جینا حرام کردیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ کورٹ میں انکوائری کھلنے کے کچھ عرصے بعد  قاضی صاحب کی بیگم کے ہاتھ میں چھڑی اور گردن میں کالر آگیا  پھر تو سب نے اور چیخے  مار مار کر رونا شروع کردیا کہ ہائے پردے دار بیبی کے ساتھ یہ سلوک ،خیر ہم تو یہ ساری بھرم بازی خاموشی سے دیکھ رہے تھے ، سوچا آرٹیکل لکھے  پھر خیال آیا  ہر نیکی کا کام  ہم  ہی کیوں کرے لیکن اب جو ہائیٹ بنی  تو سوچا اپنے  نیک خیالات کا بھی اظہار کر دیتے ہیں ۔

جہاں تک میری معلومات ہے جب کوئی وکیل ہائی کورٹ کا جج لگ جاتا ہے تو سب سے پہلے اس کو سیکیورٹی دی جاتی ہے جس میں  ان کے گھر کا فون نمبر ،پرسنل نمبر  سب ٹیپ  ہوتے ہے گھر کے آس پاس پروٹیکشن سخت ہوتی ہے،کیمرے لگے ہوتے ہیں  اور کم سے کم  تین سے چار گلیوں تک کو بلاک کردیا جاتا ہے ہر آنے جانے والے پر کڑی  نظر رکھی جاتی۔ 4 پولیس والے گھر کے باہر ٹینٹ لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور باہر آنے جانے کے لیئے پولیس حتیٰ کے رینجرز کی بھی سیکیورٹی دی جاتی ہے یعنی ایک گاڑی پولیس کی ہوتی ہے اور ایک رینجرز  کی ہوتی ہے۔ یہ تو ہوگیا ایک ہائی کورٹ کے جج کا احوال یقیناً اسی کورٹ کے چیف  کی سیکیورٹی اور بھی سخت کردی جاتی ہوگی سپریم کورٹ کے جج کے لئیے سیکیورٹی ایک درجہ اوپر چلی جاتی ہے ۔

اب یہ تو وہ جج صاحبان ہے جو اپنے گھروں  میں رہتے  ہیں  لیکن ایسے بہت سے جج ہوتے ہیں جو اپنی ججز  کالونی میں رہنا پسند کرتے ہیں ۔ان ججز میں ایک فائز عیسیٰ صاحب بھی تھے روزنامہ امت کی رپورٹ کے مطابق قاضی صاحب ججز کی کالونی میں رہتے تھے اور صبح سویرے  دونوں میاں بیوی سائیکلنگ کرتے تھے۔ اب بتائیں کون سا پردہ کیسا پردہ اور کون سی ایجنسیز کی آفتوں کی کہانیاں ۔بھئی آپ کے  24 گھنٹے میں سے 18 گھنٹے تو ان ہی کے ساتھ گز رہے ہیں ، جب یہ ایجنسیاں  فون کالز ٹیپ  کر رہیں ہوتی ہیں تو آپ خوش ہوتے ہیں  کہ  ہم اتنے اہم ہے کہ ہر کوئی ہمارے لئیے فکرمند ہے  لیکن جیسے ہی یہ  ادارے آپ کے مال پانی پر ہاتھ رکھتے ہیں تو  آپ  پورے پاکستان میں طوفان مچا دیتے ہیں کہ ہماری جاسوسی اور مخبری ہورہی ہیں ،پھر قومیت بھی یاد آجاتی ہیں  ،عورت کارڈ بھی یاد آجاتا ہے   اور آخر کار کیس بند ہی کروادیتے ہیں ۔

خیر ہمیں کیا فرق پڑتا ہے یہ پیسہ اگر نکلتا بھی تو  کون سی ہماری جیب میں آتا  لیکن ان خاتون نے جو عام عوام کی شکایتیں تھیں ، دکھ تھے جو اپنے نام سے اشتہار بنائے اس نے عام  آدمی کی  genuine شکایتوں کو سیدھا کچرے کے ڈبے میں پھینک  دیا ۔اب کیسے ایک عام عورت کہے کہ میرے پیچھے  کون لگا ہے میرے بچوں کو کون تنگ کر رہا ہے کیونکہ جواب تو فوراً حاضر ہوگیا  کہ جب جج کی بیوی کے ساتھ ہورہا ہے تو پھر آپ کیا ہے یا اس  شخص کو چیف جسٹس کی سیٹ نہیں مل رہی تو آپ کی کیا حیثیت ؟

یعنی ایک پوسٹ  اور ایک عام آدمی کی   روزی روٹی اس کی زندگی ،سب برابر کردی گئی ۔ایک شخص کا گھر  چلنا ہے اور ایک نے اپنی نسلوں کو یہ بتانا ہے کہ تمھارے دادا بھی قاضی رہے تھے سب برابر ہوگیا۔

پاکستان میں صرف امیر اور طاقتور عورت کو عورت سمجھا جاتا ہے پھر اس کے حقوق  ہوتے ہیں مال بچانا ،اپنے مردوں کو  عہدے دلانا سب ان عورتوں کے زمہ ہوتا ہے اور سوسائٹی بھی ان کی مددگار ہوتی ہے جیسے یورپ میں  نواب زادیاں  اور شاہی خاندان کی خواتین ہوتی تھی جو اپنے مردوں کے جھگڑے ختم کراتی تھی ان کو عہدے دلوانا لوگوں میں ان کی رائے اور پوزیشن  بہتر بنانا سب ان بیگمات کی زمہ داریاں ہوتی تھی بس وہی سب کچھ پاکستانی کلچر بن چکا ہے ،لیکن جیسے ہی اس سسٹم سے الگ کوئی عورت کھڑی ہوتی ہے پھر تو اس  عورت  کو عورت ہی نہیں سمجھا جاتا  اس پر وہ بوجھ  لادا جاتا ہے جس سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔

اب جو قاضی صاحب اور ان کی بیوی  جن حالات کا سامنا کر رہیں ہیں اسے ہندؤ مذہب میں کرما اور دھرما کہتے ہیں ۔یعنی انسان کی سزا  ہندو مذہب کے مطابق دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں ایک سزا  وہ اپنے  اعمال سے  بھگتا ہے اور  دوسری سزا  اس کے لئیے   خدا کی جانب سے  ہوتی ہے  مقصد یہ ہوا کہ کرما اور دھرما اٹل ہے اور اسی زندگی کے لیئے  ہے ، لہذا ،قاضی صاحب کے پیچھے بھاگنے والوں کو آپ کتا کہے یا سور  یہ ان کے پیچھے  ان کے اعمال کے سبب ہی لگے ہیں ۔