آج کے دور میں ہمارے معاشرے میں غیر منطقی اور روایتی سوچ کا غلبہ ہے، جس سے ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ ہمیں اس غیر معقول سوچ کو چیلنج کرنے اور نئے افق دریافت کرنے کے لیے عقل اور ریشنلزم کو اپنانا ہوگا۔ یہ مضمون عقل و شعور اور سائنسی و معقول سوچ کے امتزاج پر روشنی ڈالتا ہے، تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ اپنی سوچ کو کیسے بدل سکتے ہیں اور ایک نئی سمت میں کیسے بڑھ سکتے ہیں۔
ریشنلزم اور فلسفیوں کی آراء
افلاطون نے اپنی کتاب Republic میں عقل کی بنیاد پر معاشرتی نظام کی تعمیر کی بات کی، ان کے مطابق عقل ہمیں حقیقت اور علم کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اسی طرح ارسطو، جو ان کے شاگرد تھے، نے اپنی کتاب Nicomachean Ethics میں کہا کہ "انسانی زندگی کی بنیاد عقل پر ہونی چاہیے، کیونکہ عقل کے ذریعے ہی ہم حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں” (Aristotle, Nicomachean Ethics)۔
رینی ڈیکارٹ نے کہا: "میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں” (Descartes, Meditations on First Philosophy)۔ اس جملے کا مقصد یہ تھا کہ ہماری شخصیت اور وجود کی بنیاد عقل اور ریشنلزم ہے، جو ہمیں غیر منطقی باتوں کو رد کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ان کا یہ قول ریشنلزم کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور ہمیں یہ باور کراتا ہے کہ ہمیں ہر بات کو دلیل اور عقل کے معیار پر پرکھنا چاہیے۔
اسلام میں عقل اور ریشنلزم کی اہمیت
اسلامی تعلیمات میں بھی عقل و ریشنلزم کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن ہمیں بار بار یہ دعوت دیتا ہے کہ ہم ہر چیز پر غور و فکر کریں اور صرف ظاہری باتوں پر نہ چلیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
> "کیا وہ زمین میں چلتے پھرتے اور عقل سے کام نہیں لیتے؟”
— (سورۃ الحج، آیت 46)
اسی طرح، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "علم حاصل کرو، چاہے چین تک جانا پڑے” (مسند احمد)۔ یہ حدیث ریشنل سوچ اور تحقیق کو اہمیت دیتی ہے اور یہ پیغام دیتی ہے کہ ہمیں علم و عقل کی روشنی میں زندگی کے فیصلے کرنے چاہئیں۔
ریشنلزم کا کردار: غیر منطقی باتوں سے نکلنے کا راستہ
ریشنلزم ہمیں ہر بات کو عقل کے ترازو پر پرکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ اصول ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم اندھے اعتماد کے بجائے ہر چیز کو سوالات کے ذریعے سمجھیں۔ ایمانوئل کانٹ، ایک مشہور فلسفی، نے اپنی کتاب Critique of Pure Reason میں کہا کہ "انسان کو اپنی عقل کے ذریعے ہر چیز پر سوال اٹھانا چاہیے”۔ ان کے نزدیک ریشنلزم ہمیں ہر بات کو سمجھنے اور نئی معلومات حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے، جس سے ہم اپنی سوچ کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر، جب ہم کسی بات کو ریشنلزم اور سائنسی بنیادوں پر پرکھتے ہیں تو ہم زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے یا نہیں۔ یہ معقول سوچ ہمیں اپنی زندگی کے ہر معاملے کو زیادہ منطقی انداز میں دیکھنے کا موقع دیتی ہے۔
سائنس، دین اور ریشنلزم کا توازن
اسلام میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ہم دین، عقل، اور سائنس کو ملا کر اپنی زندگی گزاریں۔ اسلامی تاریخ میں ابن رشد اور ابن سینا جیسے بڑے مفکرین نے دین اور سائنس کے امتزاج سے ایک نیا علمی نظام تشکیل دیا۔ ان کے نزدیک "عقل اور دین میں کوئی تضاد نہیں بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں”۔
علامہ اقبال نے اپنی کتاب The Reconstruction of Religious Thought in Islam میں ریشنلزم اور دینی تعلیمات کو ملا کر سوچنے کی دعوت دی۔ ان کے نزدیک، "اسلام ہمیں ریشنلزم اور سائنسی انداز فکر کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے”۔ اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ ریشنلزم اور سائنس کو اپنا کر ہم دینی اور دنیاوی دونوں پہلوؤں میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
ریشنلزم اپنانے کا عملی طریقہ
سوچ کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں اپنے ارد گرد کی چیزوں کو سوالات کے ذریعے سمجھنا ہوگا۔ ہر بات کو عقل اور ریشنلزم کے اصولوں پر پرکھ کر ہی ہم ایک باشعور انسان بن سکتے ہیں۔ اس میں سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ہم ہر چیز کو اپنی سوچ کے پیمانے پر پرکھیں، نہ کہ دوسروں کے کہنے پر۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
> "یقیناً تمہارے لئے زمین و آسمان کی پیدائش میں اور رات و دن کے اختلاف میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔”
— (سورۃ آل عمران، آیت 190)
یہ آیت ہمیں غور و فکر اور ریشنلزم کے اصولوں کو اپنانے کی دعوت دیتی ہے، تاکہ ہم کائنات کو سمجھ سکیں اور اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی لا سکیں۔
نتیجہ: ریشنلزم، سائنس اور دین کا ملاپ
آخر میں، ہمیں چاہیے کہ ہم ریشنلزم اور سائنسی سوچ کو اپنا کر ایک بہتر معاشرتی ڈھانچہ تشکیل دیں۔ ہمیں روایتی باتوں پر اندھا یقین کرنے کے بجائے ہر بات پر غور کرنا چاہیے اور اپنی عقل کا استعمال کرنا چاہیے۔ اس طرح ہم نہ صرف ایک باشعور اور معقول انسان بن سکتے ہیں بلکہ اپنے معاشرے میں بامقصد تبدیلی بھی لا سکتے ہیں۔ اس سفر میں ریشنلزم، سائنس اور دین کا امتزاج ہماری رہنمائی کرتا ہے اور ہمیں ایک روشن مستقبل کی طرف لے جاتا ہے۔