مجلس احرار اسلام پاکستان نے مبارک ثانی قادیانی کیس کے فیصلہ کے بعد سپریم کورٹ کی کے افسر تعلقات عامہ کی جاری کردہ تازہ وضاحت کو حقائق کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے ۔
مجلس احرار اسلام پاکستان کے مرکزی امیر سید محمد کفیل بخاری جنرل سیکرٹری مولانا محمد مغیرہ اور ناظم اطلاعات ڈاکٹر عمر فاروق احرار نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ میں مبارک ثانی قادیانی کو قادیانیوں کی تفسیر تقسیم کرنے پر، اسے چار دیواری کے اندر مذہبی ازادی سے تعبیر کر کے، ائین کی تشریح کرنے والوں نے خود ائین کا مذاق اڑایا ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے افسر تعلقات عامہ کی جاری کردہ وضاحت میں سرے سے اس آئینی خلاف ورزی کے متعلق کوئی صفائی نہیں دی گئی ہے۔ جس نے ائینی معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید گھمبیر کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے مبارک ثانی کیس پر قادیانیوں کے متعلق سابقہ عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے ہیں مگر اپنے فیصلے میں مختلف شقیں تحریر کر کے اپنی من مانی تشریحات کی ہیں جو کہ ان آئینی فیصلوں سے متصادم ہیں۔ جن کی بدولت قادیانیوں کو اپنا ارتداد پھیلانے کی ازادی حاصل ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عقیدہ ختم نبوت اسلام کی بنیاد ہے۔ اسلام کے اس بنیادی ستون کو کمزور کرنے کی ہر کوشش کو آئینی جدوجہد کے ذریعے ناکام بنا دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ 1973 کے ائین میں ختم نبوت اور قادیانیت سے متعلق طے شدہ متفقہ ترامیم کو چھیڑنا ملک میں انتشار کو ہوا دینے کا باعث ثابت ہوگا۔
احرار رہنماؤں نے مزید کہا کہ چونکہ مبارک ثانی کیس کا فیصلہ سنانے والے جج صاحبان اپنے متنازعہ فیصلہ کی بدولت خود بھی متنازعہ بن چکے ہیں اور ان کے متنازعہ فیصلہ پر ملک بھر میں شدید غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس لیے فاضل جج صاحبان کو ازخود مستعفی ہونے کا اعلان کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نواز شریف اور ذوالفقار علی بھٹو کے پرانے مقدمات کی طرح سوموٹو ایکشن لے اور اس کیس کی ازسر نو سماعت کرے۔ تاکہ قوم و ملک مزید انتشار اور انارکی کا شکار ہونے سے بچ سکیں۔