لوگوں میں یہ بات مشہور ھے کہ:
* اگر کسی دوسرے کی استعمال کی گئی کنگھی کو کوئی دوسرا شخص استعمال کرے گا تو ان دونوں میں لڑائی جھگڑا پڑ جائے گا، اسی لیے کسی دوسرے کی کنگھی استعمال کرنے سے پہلے اس پر درود شریف پڑھ کر پھونک لیا جائے تو پھر لڑائی نہیں پڑے گی۔
سو یہ سوچ غلط ھے
اَصل:-
ایک دوسرے کی چیز استعمال کرنے سے لڑائی ہو جانا؛ یہ سوچ ہمارے اندر ہندوؤں سے آئی ھے۔ یہ عقیدہ ہندوؤں کا ھے کیونکہ ان کے مذہب میں چھوت چھات کا عقیدہ ھے اور ان میں سے اگر کسی چھوٹی ذات کے شخص نے کسی بڑی ذات کی استعمال شدہ کوئی بھی چیز استعمال کرلی تو اسے بہت سخت بُرا مانا جاتا ھے اور نحوست جانا جاتا ھے۔ بلکہ ان میں کچھ ذاتیں ایسی ہیں جو کسی بڑی ذات کی کوئی چیز استعمال کر لیں تو ان کو سزا کے طور پر بہت مارا جاتا ھے۔
☆ ذات پات کی تفریق:
ہندو دھرم سے متعلق مشہور ھے کہ ان میں چار قسم کی ذاتیں پائی جاتی ہیں، پر شکا سُکتا میں درج ھے:
چار ذاتیں اس مرد کے جسم کے چار حصے ہیں جنہیں بھگوان نے کائنات بناتے وقت پیدا کیا:-
¤ براہمن (منہ سے)
¤ شاتریا/راجانیا (بازؤں سے)
¤ ویشیا (ران سے)
¤ شُدرا (پاوں سے)
(ملاحظہ ہو:- رگ وید | برشکا سُکتا – منڈالا 10.90.11–12)
(ملاحظہ ہو:- Basham, Arthur Llewellyn (1989). The Origin and Development of Classical Hinduism)
مگر حقیقت تو یہ ھے کہ ہندو دھرم میں ۵۰,۰۰۰ تک ذاتیں پائی جاتی ہیں جو مختلف امور پر مختلف انداز میں تفریق کا سامنا کرتی ہیں۔ عموماً ان درج بالا چار ذاتوں کے علاوہ ایک اور ذات بھی بہت نمایاں ھے جس کے بارے میں "ویشنو” میں بھی درج ھے، ذیل میں ملاحظہ ہو:
☆ اچھوت/دلت/ہاریجن/پنچھامہ:
یہ شدرا ورنا سے بھی نچلی ذات سمجھی جاتی ھے۔ اس ذات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے متعلق ہندو دھرم میں یہ عقیدہ ھے کہ یہ سب سے نچلی ذات کے لوگ ہیں جن سے اونچی ذات کے لوگوں کو کسی طرح کے سماجی تعلق رکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔
(ملاحظہ ہو: Tom O’Neill, National Geographic, June 2003)
☆ چیزوں کا استعمال نہ کرنا:
سب سے نچلی ذات جو شُدرا سے بھی بری اور گندی سمجھی جاتی ھے اسے اچھوت یا دلت یا مہاتما گاندھی کے دور میں ہاریجن کہا جاتا تھا۔ ان سے کسی قسم کا لین دین یا خرید و فروخت کا معاملہ کرنا کسی دوسری ذات والے کے لیے توہین کا باعث ھے۔ حتی کہ ہوٹل، بازار وغیرہ میں ان کے استعمال کے برتن اور چیزیں بھی الگ ہوتی تھیں۔ اس ذات والوں کو مندر میں جانے کی اجازت بھی نہیں، ان کے استعمال شدہ برتن یا چیزیں جیسے کنگھی وغیرہ استعمال کرنے کی اجازت کسی اونچی ذات والے کو نہیں، نہ ہی اونچی ذات والے کی چیز چھوٹی ذات والا شخص استعمال کر سکتا ھے۔ اگر ایسا کر لیا جاتا تو چھوٹی ذات والے کو سزا کے طور پر اس کے منہ سے ۱۰ انگلیوں لمبی لوہے کی سیخ آر پار گزاری جاتی تھی۔
(ملاحظہ ہو: مانسمریتی [مانو کا قانون] ۱۷۹۴ء – از: سر ویلیم جونز)
(ملاحظہ ہو: Encyclopedia of the World’s Religions edited by R.C. Zaehner (Barnes & Noble Books, 1959))
(ملاحظہ ہو: Olivelle, Patrick (1998). "Caste and Purity)
اِضافی:-
درج بالا تفصیلات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کسی اور کی کنگھی کرنے سے متعلق جو ہم مسلمانوں میں عقائد یا تہم پرستیاں پھیل چکی ہیں ان سب کی اصل درِحقیقت ہندوؤں کے اندر موجود ذات پات کی تفریق ھے، جس کا اثر مسلمانوں میں ایک لمبے عرصے سے برِصغیر میں ہندوؤں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے پڑتا گیا؛ جو آخر عام فہم یا جاہل مسلمانوں کے عقائد بن گئے، جو کہ اب نسل درنسل چلتے آ رہے ہیں۔
◯ کنگھی پر درود پڑھنا:
رہی بات کنگھی پر درود پڑھ کر پھونکنے کی تو بیشک درود پڑھنا بہت اچھا عمل ھے مگر جس نیت کے ساتھ پڑھا جا رہا ھے وہ درست نہیں کیونکہ اسلام میں جب کسی غیر مسلم کا جھوٹا استعمال کرنا جائز ھے تو کسی دوسرے کی کنگھی کر لینا کیسے لڑائی جھگڑے کی وجہ بن سکتی ھے، توہم پرستیوں اور چھوت چھات سے متعلق عقائد کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
▪حدیث ﷺ کا مفہوم ھے کہ:
❞چھوت چھات کوئی چیز نہیں❝
حاصلِ کلام:-
کسی دوسرے کی کنگھی کرنے سے لڑائی جھگڑا ہونے کا شگن لینا غیر اِسلامی سوچ ھے۔ البتہ جراثیم، گندگی یا کسی اور شرعی وجہ سے اگر کسی دوسرے کی استعمال شدہ کنگھی استعمال نہیں کرنا چاہتے تو کوئی قباحت نہیں اور کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے بسمہ اللّٰه ﷻ اور درود پڑھ لیا جائے تو بہت اچھی بات ھے مگر کوئی مخصوص سوچ (خصوصاً تہم پرستی) رکھتے ہوئے خصوصاً اس نیت سے درود پڑھنا درست نہیں۔ جبکہ اس سوچ کی اصل غیر اسلامی ہو۔ خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں۔ نسلوں سے چلتے ہندوانہ عقیدوں اور تہم پرستیوں سے باہر نکلیں۔