یکم نومبر 1917ء اردو میں بچوں کے سب سے بڑے ادیب اور شاعر مولوی محمد اسماعیل میرٹھی کی تاریخ وفات ہے۔ وہ 12 نومبر 1844ء کو ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے بچوں کے لیے اردو میں بہت سی درسی کتابیں تحریر کیں۔ ان درسی کتب کے زیادہ تر مضامین، نظمیں، حکایات اور کہانیاں خود مولوی محمد اسماعیل میرٹھی کی تصنیف کردہ ہیں اور کچھ فارسی اور انگریزی سے ماخوذ ترجمے ہیں۔ مولوی محمد اسماعیل میرٹھی کی مرتب کردہ یہ درسی کتابیں ایک صدی گزرنے کے بھی بچوں کے ادب میں اسی مقبولیت اور اہمیت کی حامل ہیں اور آج بھی بڑے ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔
مولوی محمد اسماعیل میرٹھی میرٹھ کے مشہور محلہ "مشائخان” موجودہ ” اسمٰعیل نگر” میں 12 نومبر 1844ء کو پیر بخش کے گھر میں پیدا ہوئے، ان کا خاندان ظہیر الدین بابر کے ہمراہ 1525ء میں ملتان سے آیا تھا، ان کا نسبی تعلق محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جا کر مل جاتا ہے، عربی وفارسی کی ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنے والد سے حاصل کی اور فارسی کی اعلی تعلیم مرزا رحیم بیگ سے حاصل کی، مرزا رحیم بیگ کی کثرت مطالعہ سے بینائی جاتی رہی تھی، یہ وہی مرزا رحیم بیگ ہیں جنہوں نے مرزا غالب کی قاطع برہان کے جواب میں ساطع برہان لکھی تھی، مرزا شعر وشاعری بھی کرتے تھے چنانچہ مولوی محمد اسماعیل کو بھی شعر وشاعری کا شوق یہیں سے پیدا ہوا ، فارسی پر عبور حاصل کرنے کے بعد میرٹھ کے نارمل اسکول میں داخلہ لیا، علم ہندسہ میں مہارت حاصل کی اس کے علاوہ غیر نصابی مضامین میں فزیکل سائنس، علم ہئیت کی بھی تعلیم حاصل کی، روڑکی کالج میں انجنئیرنگ کا ٹسٹ دیا اور علم ہندسہ میں امتیازی نمبرات حاصل کیے، لیکن اجنبی ماحول سے انسیت نہ ہو پائی اور کالج کو الوداع کہہ کر میرٹھ واپس آگئے اور سولہ سال کی عمر سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کردیا۔
10 جولائی 1860ء کو سرکل میرٹھ کے محکمہ تعلیم میں کلرک ہو ئے، 1867ء میں ڈسٹرکٹ اسکول سہارنپور میں فارسی کے استاد کی حیثیت سے بھیجے گئے، 1870ء میں انسپکٹر مدارس کے دفتر میں واپس بلایا گیا جہاں وہ 1888ء تک رہے، جولائی 1888ء میں ان کو بحیثیت استاد فارسی سینٹرل نارمل اسکول آگرہ بھیجا گیا، یہاں انہوں نے یکم دسمبر 1899ء کو ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے لی اور میرٹھ آکر تصنیف و تالیف کے کاموں میں مصروف ہوگئے، اسمٰعیل میرٹھی کو غالب کا شاگرد ماناجاتا ہے حالانکہ اس میں اختلاف ہے، اس کے باوجود حسرت موہانی نے "ارباب سخن” میں ان کو غالب کا ہی شاگرد لکھا ہے، مالک رام نے ‘تلامذہ غالب’ کے حاشیہ میں غالب کی شاگردی کو ان کے بیٹے اسلم سیفی کے قول پر ثابت کیا ہے، اسمٰعیل میرٹھی اور قلق میرٹھی دونوں ہی محکمہ تعلیم میں غالب کے شاگرد تھے، اس کے علاوہ ان کی نظمیں ان کے دوست اور ہمسایہ منشی نجم الدین کے اخبار "نجم الاخبار” اور مولانا وحید الدین سلیم پانی پتی کے رسالہ "معارف” و خواجہ حسن نظامی کے جریدہ میں شائع ہوتی تھیں، ان میں زیادہ تر فرمائشی نظمیں ہوتی تھیں، اسمٰعیل میرٹھی کے دہلی میں منشی ذکاء اللہ سے اچھے مراسم تھے ، انہیں کے توسط سے مولانا حسین احمد آزاد سے ملاقات ہوئی , مولانا آزاد نے ان سے اپنی انجمن لاہور کے مشاعرے کے لئے نظموں کی فرمائش کی تو انہوں نے ‘مکھیاں’، ‘چاند’، ‘آب زلال’ لکھ کر دیں، آپ کو حکومت کی جانب سے اردو ہندی کے املا و عبارت درستگی کی کمیٹی کا رکن بھی بنایا گیا، انجمن ترقی اردو علی گڑھ کی مجلس شوریٰ کے بھی رکن تھے، 1909ء میں "مدرسہ بنات المسلمين” قائم کیا جو 1925ء میں محمد اسمٰعیل گرلز اسکول اور موجودہ وقت میں "اسماعیلیہ گرلز ڈگری کالج” کے نام سے جانا جاتا ہے.
اسمٰعیل میرٹھی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ، وہ بیک وقت شاعر، نثر نگار، مترجم، نقاد و تبصرہ نگار تھے، یوں تو وہ اپنی نظموں کے لئے مشہور ہیں لیکن انہوں نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ جن میں غزل، نظم، رباعی، قصیدہ، مثنوی، قطعہ، سلام وغیرہ شامل ہیں، انہوں نے شاعری کی ابتدا غزل سے کی، ابتدائی دور میں شاعری کو مخفی رکھا، مشاعروں میں شرکت سے گریز کرتے تھے، جب شاعری شروع کی تو اس وقت ان کی عمر محض سولہ سال تھی، ان کو فارسی میں مہارت حاصل تھی، فارسی شعراء کے کلام کے مطالعہ سے ان کی شعر گوئی میں مزید نکھار پیدا ہوا، ان کی غزلوں میں تصوف اور رومان کا رنگ گہرا ہے، وہ اپنے زمانہ کی روایتی غزل سے بیزار تھے، ان کی غزلوں میں فکر و مشاہدہ اور ذاتی تجربہ کی بنا پر ایک کیفیت پائی جاتی ہے، جو اسلوب میں گھل مل کر دلوں کو متاثر کرتی ہے، یہ اپنی غزلوں میں عشق مجازی اور واردات قلبی کو جس طرح ابھارتے ہیں اس سے ان کی قوت فکرو مشاہدہ، اور شدت احساس کا پتہ چلتا ہے، یہ جذبہ کی پختگی اور شدت احساس سے غزل کو پر اثر بنادیتے ہیں، ان کی شاعری میں وحدت الوجود اور وحدت الشہود کا تصور پایا جاتا ہے جو کہ فارسی زدہ ہونے پر دال ہے، اسمٰعیل میرٹھی کے کلام میں کئی شعراء کی تقلید ملتی ہے، ان کے کلام میں غالب کی غزل کا رنگ ہے، مومن کے فکر و فن کی جھلک ہے اور میر کی نرمی، مانوسیت، جذباتی طہارت اور اسلوب ہے، ان کی غزلوں میں عشق و تصوف کا حسین امتزاج ہے، ان سب کے باوجود ان کا اپنا انفرادی رنگ بھی ہے، حسرت موہانی نے ان کی غزلوں پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ "کلیات میں جتنی غزلیں درج ہیں ان سب میں متانت بیان و پختگی الفاظ کی وہی شان موجود ہے جو میر و مصحفی یا غالب و مومن کے کلام کے ساتھ مخصوص سمجھی جاتی ہے”، انہوں نے قصیدہ گوئی میں سودا کی روایت کی پیروی کی ہے، ان کے قطعات نفس مضمون کے لحاظ سے موضوعاتی اور تاریخی ہیں، انہوں نے ان قطعات میں انسانی روح کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے، انہوں نے معاشرے میں پھیلےغلط رسم و رواج اور برائیوں کو بڑی خوش اسلوبی سے پیش کر کے لوگوں کو متوجہ کر لینے میں کامیابی پائی ہے، کیونکہ وہ خود معلم تھے اس لئے معلمانہ اسلوب و انداز پر خاص دھیان دیا تاکہ پیغام کے اثرات سماج و معاشرے پر مرتب ہوں، ان کی رباعیاں بھی نہایت مقبول اور زبان زد عام وخاص ہیں، انہوں نے اپنی رباعیوں میں محاوروں اور ضرب الامثال کا استعمال بحسن خوبی کرکے اپنی ذہانت و فطانت اور وسیع مطالعہ کا ثبوت دیا ہے، ان کی رباعیوں میں شعری تسلسل اور معنوی ربط اور تنوع ہے، انہوں نے قدیم فلسفہ، فکر و مشاہدہ اور جدید سائنسی نقطہ نظر کو ملحوظ رکھتے ہوئے انسانی نفسیاتی پہلو کا تجزیہ کرکے اس کو شعری سانچہ کے قلب میں ڈھالا ہے، اس میں روزمرہ کے محاورے اور ٹھیٹ الفاظ کو رواج دیکر اس میں حسن پیدا کیا ہے، لغت، زبان اور اسلوب و انداز کے لحاظ سے یہ رباعیاں قابل داد ہیں، انہوں نے انفرادی ذہن کی انتشاری کیفیت کا نقشہ تخیل کے سہارے پیش کیا، اس میں مکالمہ نگاری، مرقع کشی اور مکمل خاکہ سازی کرکے اپنے اخلاقی تعلیم کے مقاصد کو نمایاں طریقے سے پیش کیا، اس تکنیک میں ان کو کمال کا سلیقہ تھا، انہوں نے رباعیات میں ہیئت کے تجربے کئے، مردف، رباعیاں، سہ قوافی، چہار قوافی، وغیرہ، انہوں نے اپنی مثنوی میں دوبحروں کا تجربہ کیا، اسمٰعیل میرٹھی ایک روایت شکن اور انحرافی ذہنیت کے مالک شخص تھےاور اسی انحرافی طبیعت نے اردو شاعری میں ان کو منفرد اور ممتاز بنادیا، انہوں نے مثنوی اور مسدس ہی نہیں بلکہ مثلث، مربع، مخمس، مثمن اور ترجیع بند جیسی ہئیتوں کا کامیابی سے استعمال کیا، جدید نظم نگاروں میں میرٹھی ہی وہ واحد نظم نگار شاعر ہیں جنہوں نے اپنی نظموں میں ہیئت کا نیا تجربہ کر اپنے معاصرین میں ایک الگ مقام بنایا، اردو ادب میں "ابیات” کا اضافہ کیا فردیات کے اصول کے برخلاف انہوں نے مطلع کی صورت میں ایک خیال کو صرف دومصرعوں میں مرکوز کردیا یہ ان کی اختراع تھی، انہوں نے مکمل خیال کے قطعہ کو ہئیت میں پیش کرکے نیا تجربہ کیا، یہ ایجاز بیان اور جامعیت کی نادر مثال ہے، اس کو "بیت” یا یک شعری نظم کہا جاتا ہے، اسمٰعیل میرٹھی کی شاعری اور نئے تجربات نے ترقی پسند شاعری اور نظم معریٰ کی داغ بیل ڈالی، انہوں نے ہی نظم معریٰ اور مصرع مسلسل سے روشناس کروایا، جو بعد میں جدید شعراء کیلئے مشعل راہ بنا، گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ "ان کا شمار جدید نظم کے ہئیتی تجربوں کے بنیاد گذاروں میں ہونا چاہئے، جدید نظم نگاری میں ان کو اولیت حاصل ہے” ، مولانا عبدالباری ندوی رقم طراز ہیں کہ "ایک زبردست شاعر تھے، حالی مرحوم اور مولائے مذکورہ کا ایک رنگ ہے، بلکہ بعض باتوں میں آپ حالی سے پیش پیش ہیں ".
اسمٰعیل میرٹھی ایک نثر نویس، ادیب اور نقاد بھی تھے، ان کی نثر نگاری کا انداز و معیار بہت اعلی تھا، سنجیدہ علمی مضامین، متصوفانہ اصطلاحات اور تاریخی واقعات کو انہوں نے اپنی انشا پردازی سے کمال کے ساتھ پیش کیا ہے، ان کا تنقیدی شعور بھی ان کے مطالعہ کی وسعت اور فن پر درک کی پہچان تھا، ان کی تحریروں میں اصلاحی پہلو غالب ہے، ان کی شخصیت رجائیت پسند تھی، علم عروض و بیان میں بھی اپنے معاصرین میں ممتاز درجہ رکھتے تھے ، ان کی تحریروں میں سلاست، روانی، رچاؤ، قوت استدلال اور جدید نثری اسلوب ملتا ہے، جوکہ نثر میں بھی ان کو منفرد بنادیتا ہے، اسمٰعیل میرٹھی تہذیب نو سے بے زار نہ تھے اور پرانی قدروں کے منحرف بھی نہ تھے، مغربی رہن سہن کے مخالف تھے لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت کے قدردان تھے، تعلیم و ترقی میں وہ سر سید کے ہمنوا تھے، ان کی نثری تحریروں میں غالب اور سرسید کی جھلک ہے.
اسمٰعیل میرٹھی کا سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو کی درسی کتابوں کی تدوین و تالیف میں بچوں کی نفسیات کو پیش نظر رکھا ہے، ان کی مدون کی ہوئی درسی کتابوں نے اردو زبان کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا، انہوں نے تاریخی، اخلاقی، زراعتی اور حفظان صحت، سائنس، جغرافیہ جیسے اہم موضوعات کو ان کتابوں میں پیش کیا، انہوں نے اخلاقیات پر مبنی نظمیں، کہانیاں اور قصے لکھے، انہوں نے اپنی نظموں میں جانوروں اور پرندوں کے موضوعات پر بیشتر اصلاحی نظمیں لکھیں، ان کی نظموں میں کہانی کا انداز، زندگی کا شعور اور ذہنی تربیت کا سامان ملتا ہے، ان کی نظموں میں "ایک گھوڑا اور سایہ”، "ایک کتا اور بلی”، "ایک کتا اور اس کی پرچھائیاں”، "چھوٹی چیونٹی”، "اسلم کی بلی”، "کچھوا اور خرگوش” وغیرہ شامل ہیں، دراصل اسمٰعیل میرٹھی ایک مصلح بھی تھے.
سعدئ ہند اور بچوں کا اسمٰعیل 1 نومبر 1917ء کو دار فانی سے رخصت ہوا اور عید گاہ روڈ پر اپنی پسند کی ہوئی جگہ پر سپرد خاک کئے گئے.
ان کی تصنیفات و تالیفات مندرجہ ذیل ہیں :-
- طلسم اخلاق
- مثنوی فکر حکیم
- ریزہ جواہر (منظومات(
- تذکرہ غوثیہ (سوانح(
- قصیدہ جریدہ عبرت
- مثنوی قران السعدین (مقدمہ(
- کلیات اسمٰعیل
- سفینہ اردو
- اردو قاعدہ
- اردو کی پہلی کتاب
- کمک اردو
- ادیب اردو
- نماز (رسالہ(
اسماعیل میرٹھی نے نہ صرف بچوں کے لیے بے حد خوب صورت شاعری کی بلکہ انہوں نے نظم نگاری میں مختلف تجربے بھی کیے ان کی نظم اردو کی پہلی معریٰ کہلاتی ہے۔ ان کی نظموں میں ایسے متعدد شعر موجود ہیں جو آج بھی زبان زد ِ خاص و عام ہیں۔
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
نائو کاغذ کی سدا چلتی نہیں
……٭٭٭……
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
……٭٭٭……
نہر پر چل رہی ہے پن چکی
دھن کی پوری ہے کام کی پکی