10 اکتوبر 2008ء کو پاکستان کے معمر ترین سیاستدان اور تحریک آزادی کے کارکن اسلم خٹک پشاور میں وفات پاگئے اور قبرستان چار سدہ روڈ، پشاور میں آسودۂ خاک ہوئے۔
اسلم خٹک 5 اپریل 1908ء کو چترال میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد محمد قلی خان پولیٹیکل ایجنٹ تھے اور انہیں انگریزوں نے خان بہادر کا خطاب عطا کیا تھا۔ اسلم خٹک نے اوکسفرڈ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اسی زمانے میں انہیں چوہدری رحمت علی کے مشہور کتابچے ’’نائو آرنیور‘‘ کی تدوین میں ہاتھ بٹانے کا موقع ملا۔ اس کتابچہ میں ہندوستان میں ایک مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اس کا نام ’’پاک ستان‘‘ تجویز کیا گیا تھا۔
اسلم خٹک نے اپنے کیریئر کا آغاز سول سروس سے کیا۔ وہ آل انڈیا ریڈیو، پشاور کے پہلے اسٹیشن ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ اس دوران انہیں پشتو زبان کے پہلے ڈرامے دوینو جام لکھنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔قیام پاکستان کے بعد اسلم خٹک افغانستان اور ایران میں پاکستان کے سفیر رہے۔ وہ کئی مرتبہ اسمبلیوں کے رکن منتخب ہوئے اور 70 کی دہائی میں سرحد اسمبلی کے اسپیکر اور اسی صوبے کے گورنر رہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ مجلس شوریٰ کے رکن نامزد ہوئے۔ 1985ء میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور محمد خان جونیجو کی ہرکابینہ کے رکن رہے۔ 1988ء میں وہ اوجڑی کیمپ کے سانحے کی تحقیقات کے لئے قائم کی جانے والی کمیٹی کے رکن بنے جس میں انہوں نے اس سانحے میں ملوث فوجی افسران کو بچانے کی بھرپور کوشش کی۔ جنرل ضیاء الحق ان کا یہ احسان نہیں بھولے اور جب انہوں نے وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کرکے نگراں حکومت قائم کی تو اس میں اسلم خٹک کو سینئر وفاقی وزیر کے طور پر شامل کیا۔
1988ء کے عام انتخابات میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے مگر 1990ء کے عام انتخابات میں وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ اس کے بعد وہ کسی انتخاب میں کامیاب نہیں ہوئے۔ عمر کا آخری حصہ انہوں نے گوشہ گمنامی میں گزارا۔ انہوں نے اپنی یادداشتیں’’اے پٹھان او ڈیسی‘‘ کے نام سے تحریر کی تھیں۔