تحریر: ابو محمد
کچھ مدت پہلے کی بات ہے؛ کہ بچوں کے ؛ معروف رسالے "بچوں کا اسلام” میں ایک قسط وار ناول بنام "عشق کے قیدی” شروع ہوا ؛ ایک تو موضوع کا مقدس پن ؛ دوسرا لکھاری کا اسلوب تحریر …!! کیا کہہ سکتا ہوں ؟ کہ ان عوامل نے مل کر ؛ ناول کا مزہ دو آتشہ کر دیا ! بدقسمتی ہماری نصیب میں یہ تھی ؛ کہ گاؤں میں ہونے کی وجہ سے ؛ رسالے کا دیدار کبھی کبھار ہوتا تھا ؛ تو اسی الجھاؤ میں یہ شاہکار مجھ سے بچھڑ گیا ؛ یعنی مکمل نہ کر سکا ! اپنی قسمت کو کوستا رہا ؛ اور کیا کر سکتا تھا !
زندگی کا سفر ؛ کسی کا انتظار کیے بغیر جاری رہا ! مہینوں بعد کی بات ہوگی ؛ کہ دل میں انگڑائی پیدا ہوئی؛ عشق میں جوبن اٹھا ؛ عمل نے کرنے کی ٹھانی ؛ دماغ نے ہاں کر دیا ….!!
کتاب کا بندوست ہوا ؛ بچھڑے آرزوں کی تکمیل کی راہ ہموار ہوئی!
اور میں مصنف کی انگلی پکڑ کر ؛ عشق کے سفر پر روانہ ہوا ! حکومت وقت کا دغا پن عروج پر تھا ؛ رقیبوں نے جگہ جگہ ” مورچے” قائم کیے تھے ! ” خود کاشتہ پودا ” دندناتا پھر رہا تھا ! معصموں کا لہو تھا ؛ اداروں کی سنگدلیاں عروج پر تھیں ….!!!
بچوں کی آہیں؛ بے گناہوں کی سسکیاں ؛ دلہنوں کا چپ چپ کر رونا ؛ ماؤں سے ہمیشہ کے لیئے؛ جگر گوشوں سے دور ہونا …..!!!
اسی ” موضوع ” کی برکت سے ؛ مختلف مکاتب فکر کے علماوں کا جھمگٹا …!!
حیرت ہوتی ہے کہ ۱۹۵۳ کا یہ ” خون فشاں” دور ہم پر گزر چکا ہے!
یہ صرف ایک کتاب نہیں؛ بلکہ ایک ” عہد” کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا ہے 🖤!
اس کتاب کو پڑھ کر ؛ اس جملے کی صداقت پر یقین آگیا ؛ جب تحریر پڑھتے ہوئے؛ آپ کی ایک آنکھ روۓ ؛ اور دوسری ہنسے ؛ تو سمجھ جائے؛ کہ آپ ” ظفر جی” کو پڑھ رہے ہیں!
ظفر جی سلامت رہیں💜…..!!!