پیر, اکتوبر 7, 2024

مقاطعہ (سوشل بائیکاٹ)

آخر جب نہ ترغیب سے کام بنا اور نہ ہی ترہیب کسی کام آئی، نہ لالچ نے کوئی اثر دکھایا اور نہ ہی دھمکی سے کوئی فائدہ ہوا… تو مشرکینِ مکہ نے انتہائی سنگدلی و سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے خاندان سے مکمل طور پر معاشرتی مقاطعہ کرلیا جائے، یعنی پورے شہر مکہ میں کوئی ان کے ساتھ سماجی ٗ یا تجارتی ٗ یا اور کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہ رکھے، اور اس ظالمانہ مقاطعہ کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ محمد(ﷺ) اور ان کے ساتھیوں نے آباؤاجداد کے دین سے غداری کی ہے۔

یہ مقاطعہ تین سال مسلسل جاری رہا، اس تمام عرصے میں آپ ﷺ اپنے خاندان سمیت شعب ابی طالب میں محصور رہے، یہ دور مسلمانوں پر بہت سخت گذرا، اس دوران انہوں نے بڑی تکلیفیں اٹھائیں، ایسی نوبت بھی آئی کہ بھوک مٹانے کیلئے وہ درختوں کے خشک پتے کھاتے رہے… اور خشک چمڑے کا ٹکڑا پانی میں بھگو کر باری باری سب چوستے رہے… ان کے معصوم بچے بھوک اور پیاس کی شدت سے روتے اور بلکتے رہے…!!

اسی کیفیت میں مکمل تین سال گذر گئے … آخر… نبوت کے دسویں سال کے آغاز میں ماہِ محرم میں اشارۂ الٰہی سے دیمک اس صحیفے کو کھا گئی جس پر یہ معاہدہ تحریر تھا، تب قریش میں سے ہی ایک شخص مطعم بن عدی نے اس صحیفے کے باقی ماندہ حصے کو بھی پھاڑ کر پھینک دیا… اور یوں اس ظالمانہ مقاطعے کا اختتام ہوگیا۔

عام الحزن (غم کاسال)

نبوت کے دسویں سال رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے اہلِ خاندان کو شعبِ ابی طالب سے نکلے ہوئے ابھی بمشکل چند ماہ ہی گذرے تھے کہ آپ ﷺ کے سرپرست اورمشفق و مہربان چچا ابوطالب کا انتقال ہوگیا، یقیناً آپ ﷺ کیلئے یہ بہت بڑا صدمہ تھا۔(۱)

اور پھر اس کے کچھ عرصے بعد ہی آپ ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا بھی داغِ مفارقت دے گئیں۔

پے درپے یہ دونوں صدمے آپ ﷺ کیلئے انتہائی رنج و الم کا باعث بنے، گھر سے باہر مخالفین و مفسدین کے مقابلے میں ہمیشہ مضبوط چٹان کی مانند ڈٹے رہنے والے مشفق و مہربان چچا اب اس دنیا میں نہیں رہے… گھر کے اندر ہمیشہ تسلی دینے والی رفیقۂ حیات یعنی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی نہیں رہیں… جو کہ گذشتہ پچیس سال سے مسلسل آپ ﷺ کیلئے خلوص و وفاء کا پیکر بنی ہوئی تھیں… اور جو آپ ﷺ کے بچوں کی والدہ بھی تھیں۔(۲)

لہٰذا اب آپ ﷺ کا نہ گھر سے باہر دل لگتا تھا… اور نہ ہی گھر کے اندر… ! نیز یہ کہ ابوطالب کی وفات کے بعد کفار و مشرکین کے حوصلے بھی خوب بڑھ گئے، کیونکہ آپ ﷺ کے معاملے میں انہیں پورے شہر مکہ میں بس ابوطالب ہی کا لحاظ تھا… اب یہ چیز بھی ختم ہوگئی… لہٰذا اب آپ ﷺ کی مشکلات میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگیا… !
یہی وہ مشکل ترین حالات تھے جن کی وجہ سے آپ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے اس دور کو تاریخ میں ’’عام الحزن‘‘ یعنی ’’غم کا سال‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

[جاری ہے]

(۱) ایک تو چچاکی وفات کا صدمہ… چچا بھی ایسے کہ جو زندگی بھر پشت پناہی و ہمدردی کرتے رہے… اور پھرمزید صدمہ اس لئے کہ چچا کی وفات اپنے آبائی دین یعنی ’’شرک‘‘ پر ہوئی۔

(۲) سوائے ابراہیم کے جن کی ولادت بہت بعد میں مدینہ میں حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی اور پھر تقریباً ڈیڑھ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں