ہفتہ, دسمبر 21, 2024

اُردو کے عظیم مرثیہ گو میر ببر علی انیس کے معمولات

انیس صبح کو نو بجے کے قریب سو کر اٹھتے تھے۔ اٹھنے کے کوئی ایک گھنٹے بعد کھانا کھالیتے تھے۔ کھانے سے فراغت کے بعد مونس ، نفیس اور دوسرے شاگردوں کو کلام پر اصلاح دیتے اور مشقِ سخن کراتے تھے جس کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ اصلاح طلب کلام سنتے اور درست کراتے جاتے تھے۔ کبھی دس بارہ بند پہلے کے سنے ہوئے مصرعے کو بدلواتے اور کبھی کبھی ایک دو دن پہلے کے اصلاح شدہ کلام میں کوئی نئی اصلاح کردیتے تھے۔

مشق کرانے کا طریقہ میر حامد علی یہ بتاتے ہیں کہ انیس مونس اور نفیس کو ایک بیت کہہ کردیتے اور اس پر مصرعے لگواتے۔ وہ مصرعے کہہ کر سناتے تھے، میر انیس ان کا عیب و ہنر بیان کرتے تھے اور ان سے بہتر مصرعے کہنے کا حکم دیتے تھے۔ اس طرح اک ٹیپ پر کئی کئی مرتبہ مصرعے لگواتے تھے اور آخر میں خود مصرعے لگاتے تھے۔

اصلاح وغیرہ کے کام میں انیس کا خاصا وقت صرف ہوتا تھا اور غالباً اسی دوران وہ نماز ظہر پڑھ لیتے تھے۔ دو بجے کے قریب پھر سوجاتے تھے۔ سہ پہر کو بیدار ہو کر نماز عصر پڑھتے، غسل کرتے، کبوتروں کو دانہ وغیرہ دیتے تھے۔ اس وقت ان کا مزاج عموماً شگفتہ ہوتا ہوتا تھا۔ اہلیہ اور دوسرے گھر والوں سے خانگی امور کے بارے میں زیادہ تر اسی وقت گفتگو ہوتی تھی۔

تیسرے پہر سے ملاقاتیوں کا سلسلہ شروع ہوتا۔ بیچ میں نمازِ مغرب، کبھی گھر پر، کبھی مسجد میں باجماعت پڑھتے تھے۔ ملاقاتیں دیر رات تک جاری رہتی تھیں۔ ان سے فرصت پاکر زنانے مکان میں آتے اور نمازِ عشا پڑھ کر کھانا کھاتے، اس کے بعد پان کھا کر کچھ دیر ٹہلتے، پھر اپنے لکھنے پڑھنے کے کمرے میں چلے جاتے اور وہیں مرثیہ گوئی اور مطالعے میں رات گزارتے تھے۔ اس وقت زیادہ تر دو زانو بیٹھتے، دونوں ہاتھ رخساروں پر رکھے رہتے تھے۔ لکھتے وقت بھی بایاں ہاتھ رخسار پر ہوتا تھا۔ سامنے کنول میں لگی ہوئی تیز روشنی والی بڑی شمع رہتی تھی۔ کہا کرتے تھے کہ "وہ شاعری ہی کیا جو تین شمعیں جلا کر روزانہ مشقِ سخن نہ کرے۔” داہنے بائیں کتابیں رہتی تھیں۔

انیس کی ایک نواسی بتاتی تھیں کہ وہ رات کو اپنے اس کمرے میں پانی کی جھجھری، آب خورہ اور ایک روغنی روٹی رکھوالیتے تھے۔ "مرثیہ کہنے کے وقت مکان کے جنوبی رخ کے دوسرے درجے میں تخت پر بیٹھتے تھے۔۔۔ جب کچھ سوچنے لگتے تو اکثر کہنیاں زانوؤں پر ہوتی تھیں۔” قریب قریب روزانہ ساری رات جاگتے تھے، یہاں تک کہ نمازِ فجر کا وقت ہوجاتا نماز پڑھ کر سوتے تھے۔

انیس کھانا بہت سادہ اور مقدار میں کم کھاتے تھے۔ احسن ان کی غذا "شب کو یخنی، دن کو دودھ اور کچھ فواکہ، سادہ گوشت کا قلیہ یا قورمہ” بتاتے ہیں۔شاد کا بیان ہے کہ انیس "پرہیزی غذا کرتے تھے۔” اور کھانے میں پھلکے اور قورمہ کھاتے تھے۔ شاد یہ بھی بتاتے ہیں کہ انیس نے آخر عمر میں سوے ہضم کی شکایت کے سبب رات کا کھانا چھوڑ دیا تھا، "صرف چوزے کی یخنی اور چند بادام رگڑ کر کھا لیا کرتے تھے۔”

مانوس کا بیان ہے کہ انیس "پانی بھی بہت کم پیتے تھے۔ ہم لوگوں کو جب کبھی زیادہ پانی پیتے دیکھتے تو منع کرتے۔” نواب عنایت جنگ کا کہنا ہے کہ "مرثیے کے درمیان میں اگر ان کا حلق سوکھ جاتا تھا تو پانی نہیں پیتے تھے۔”

انیس کے پینے کا پانی (جو وہ اکثر اپنی بیٹی کے سسرال کے کنویں کا منگواتے تھے) اہتمام سے تیار کرایا جاتا تھا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ پتھر کے ایک بڑے سے کاسہ نما برتن میں پانی بھرا جاتا اور اس میں تپتے ہوے لوہے کا ایک ٹکڑا ڈال دیا جاتا تھا۔ یہ برتن "آہن تاب” کہلاتا تھا۔ اس کے پیندے میں ایک سوراخ تھا جس سے ٹپکتا ہوا پانی نیچے لگے ہوے برتن میں جمع ہوتا رہتا تھا۔ انیس یہی پانی پیتے تھے۔ 1978ء میں لائق مرحوم نے مجھے بتایا تھا کہ وہ آہن تاب ان کے یہاں اب بھی موجود ہے۔

جس پانی میں گرم لوہا بجھایا گیا ہو وہ دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ طبی مفردات اور مرکبات کی کتاب آبِ حیات میں "آہن تافتہ یعنی وہ پانی کہ اس میں لوہے کو کئی بار آگ میں لال کرکے بجھایا ہو” آنتوں کے زخم، معدے کی کمزوری وغیرہ دور کرنے کے علاوہ "دفعِ زردی رخسار” کے لیے بھی مفید بتایا گیا ہے۔ عارف کا بیان ہے کہ انیس کے چہرے کی رنگت رات رات بھر جاگنے کی وجہ سے زرد ہوگئی تھی۔

آم انیس کا پسندیدہ پھل تھا۔ لنگڑا آم، خصوصاً بنارس کا لنگڑا، بہت شوق سے کھاتے تھے۔ ایک حکیم سید علی نے انھیں ایک سو اکتیس آموں کا ٹوکرا بھیجا تو انیس نے "انبہ شیریں ادا” اور میوہ مراد” کی رسید میں لکھا:

” اس نعمت کا شکریہ کس طرح ادا کروں کہ ہونٹ سے ہونٹ الگ ہی نہیں ہورہے ہیں۔ اس کو نبات و قندِ مصری کا کوزہ نہیں کہہ سکتا، اس لیے وہ سخت ادا یہ نزاکت اور لطافت کہاں سے لائے۔ جس کے بھی ہونٹ اس کے نازک دہن یا قاش تک پہنچ گئے وہ شیریں لبوں کے بوسے سے بے نیاز ہوگیا۔”


حوالہ کتاب : "انیس”
از : "نیّر مسعود”
ص : 124..125…126

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں