Home تازہ ترین سندھ و جنوبی پنجاب میں ایڈز اور ہیپاٹائٹس کی بیماریاں اور حکومتی...

سندھ و جنوبی پنجاب میں ایڈز اور ہیپاٹائٹس کی بیماریاں اور حکومتی نااہلی

2

تحریر : فارینہ حیدر

یہ غالباً 2020 کی بات ہے،  اندرون سندھ میں ایک کیس سامنے آیا کہ کچھ عورتوں اور بچوں کو ایڈز کی بیماری اچانک تشخیص ہوئی ۔ ہرطرف افراتفری مچ گئی کہ اچانک ایڈز کے مریض کیسے بڑھ گئے ۔

پہلی تعداد تقریباً سو سے ڈیڑھ سو افراد کی نکلی لیکن یہ تعداد چند ہفتوں میں مزید بڑھ گئی، ان مریضوں کی تعداد 250 سے 300 کے درمیان پہنچ گئی۔ میڈیا میں کھلبلی مچ گئی لوگوں نے خوف سے اندرون سندھ کے ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں جانا چھوڑ دیا ۔ جب انکوائری ہوئی تو معلوم  ہوا کہ سرکاری ڈاکٹر جو کہ آن ڈیوٹی تھا اسے ایڈز کی بیماری ہو گئی تھی اور اس پاگل ڈاکٹر نے  اپنی استعمال شدہ سرنجیں مریضوں کو انتقاماً لگانی شروع کر دی، جس کی وجہ سے اندرون سندھ کی  غریب اور بے بس عوام کو  اتنا موذی مرض لگ گیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریضوں کی تعداد میں بھی  اضافہ ہوا جب اس پر انکوائری بیٹھی تو وہاں سے یہ خبر آئی کہ پانی میں ہیپاٹائٹس  بی اور سی کے جراثیم پائے گئے ہیں اور اس پانی سے عوام میں  مرض پھیل رہا ہے ۔

اب تقریباً 4 سال بعد  یہی خبریں  جنوبی پنجاب سے آنے لگی۔  تونسہ شریف میں ایڈز کا مرض بھی اچانک پھیلا جب انکوائری  ہوئی تو پتہ چلا کہ ڈائیلسز کی مشین پر ایک  ایڈز کے مریض کا ڈائیلسز کیا گیا اور  بغیر صفائی کے اس مشین پر  دوسرے مریضوں کا ڈائیلسز  کر دیا گیا ، جس کی وجہ سے تونسہ شریف میں یہ موذی مرض پھیل گیا ۔ پانی کی کوالٹی جو اندرون سندھ کی ہے وہی جنوبی پنجاب کی ہے ۔ اس لیے وہاں بھی ہیپاٹائٹس بی اور سی  کے مریضوں  کی کثیر تعداد  ملے  گی۔ سندھ میں پچھلے سال جنوری تا اکتوبر  ایڈز کے دو ہزار 537 کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ جنوبی پنجاب میں ڈاکٹروں کی غفلت سے 550 کیسز سامنے آئے ، یاد رہے کہ 2017 میں پورے پاکستان میں ایڈز کی مریضوں کی تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار تھی ۔ ورلڈ ہیپاٹائٹس الائنس کی 2013 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی دس فیصد آبادی ہیپاٹائٹس بی اور سی کا شکار تھی جس کی وجہ ناقص پانی اور خوراک ہے لیکن اب 2025 کی رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان کا ہر پچیسواں شہری ہیپاٹائٹس کا شکار ہے ۔

اب آتے ہیں  اصل مدعے پر  اندرون سندھ سے لیکر جنوبی پنجاب تک ایک ہی بیلٹ چل رہی ہے اس پوری بیلٹ کے عوام کی ثقافت ، زبانیں ، قبائل سب ملتے جلتے ہیں ان میں آپس میں رشتے داریاں بھی ہیں اسی کو سرائیکی بیلٹ بھی کہتے ہیں ۔سب سے اہم بات اس  پوری بیلٹ کے مسائل  ، پسماندگی ، غربت وہ  بھی ایک جیسی ہے بلکہ اب تو  موذی بیماریاں بھی ایک جیسی ہو رہی ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے اس بات پر اس خطے کے  باشعور ،پڑھے لکھے  طبقے  کو غور کرنا چاہیے اور ان مسائل کا فوری سدباب کرنا چاہیے کیونکہ حکومتوں سے امید کرنی بے کار ہے ، اگر انہیں ان مسائل کو حل کرنا ہوتا تو بہت پہلے کرچکے ہوتے چونکہ  پاکستان میں پچھلے 17 سال سے جمہوری حکومتیں چل رہی  ہیں ۔ حکومتوں  نے اس خطے کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے اور پیچیدہ بنادیا ہے ۔ جیسے سندھ میں پانی نہ ہونے کے باوجود  چھ کنال بنائی جا رہیں ہیں اسی طرح  اندرون سندھ سے لیکر جنوبی پنجاب کی بنجر زمین  پر  زراعت کا فیصلہ کر کے” مرے پر سو درے والا”  کام کیا ہے ۔

کیا اس پسماندگی غربت اور پھیلتی ہوئی بیماریوں کی وجہ حکومتی نااہلی ہے یا سازش ؟ کہی ایسا تو نہیں کہ حکومت نے ان زمینوں پر  زراعت کے نام پر  قبضہ کرنا ہے جبکہ دونوں صوبوں کی حکومتیں بہت اچھی طرح جانتی ہے کہ نہ اس زمین پر پانی ہے اور نہ ہی زمین قابل کاشت ہے اور جو تھوڑا بہت پانی ہے  وہ بھی آلودہ پانی ہے۔ ہمارے خیال میں اگر حکومت کا مقصد عوام کی فلاح وبہبود ہوتا  تو اس جگہ کو  صنعتی علاقہ بناتی یہاں اسکول کالج  ہسپتال اور پولسنگ کا نظام  قائم کرتی نہ کہ مصنوعی طریقے سے زراعت کا فیصلہ کرتی۔

صحرائی زمین پر کاشت کاری کا بھارتی تجربہ ہم دیکھ چکے ہیں انھوں نے راجھستان میں زراعت کی بھرپور کوشش کی دریا موڑ دیے لیکن نتیجہ صفر رہا آج بھی راجھستان  کے کسان خود کشیاں کر رہے ہیں کیونکہ زمین ہموار نہیں ہے۔ زمین ریتلی اور گرم بھی ہے لہذا جب سوکھا پڑتا ہے تو  کسانوں کے گھروں میں فاقے پڑ جاتے ہیں اور صرف بیس بیس ہزار روپے کی وجہ سے کسان خود کشیاں کر لیتے ہیں پچھلے سال راجھستان میں تین سو کسانوں نے خود کشیاں کی۔ اسی زمین اور فارمنگ کی جنگ کو مودی حکومت بھارتی پنجاب میں لے کر آئی ہیں کیونکہ وہاں کی زمین زرخیز ہے۔  سکھوں کی زمینوں پر جو قبضے کی جنگ چل رہی ہے اس کے خلاف سکھ پوری دنیا میں احتجاج کر رہے ہیں ۔ سمجھے تو پاکستان اور  بھارت کی حکومتیں ایک جیسی پالیساں بنارہی ہیں ،چونکہ بھارتی عوام کا سیاسی اور سماجی شعور پاکستانی عوام سے بہت بلند ہیں اس لئیے  ان کی حکومتوں کو اپنے فیصلوں سے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے ۔

پاکستان میں سیاسی  اور سماجی شعور کی بے انتہا کمی ہے۔عوام پڑھی لکھی نہیں  اور قبائلی نظام میں بری طرح جھکڑی ہوئی ہے ۔اب   سندھ اور جنوبی پنجاب کے پڑھے لکھے اور باشعور طبقے  کا فرض بنتا ہے کہ حکومتیں جو ان مظلوموں  کے خلاف مسلسل سازشیں کر رہی ہیں ان سازشوں کو توڑے  ۔جو لوگ پہلے ان کی روزی پر  سودا کر رہے تھے اب وہ کئی سال  سے ان کی صحتوں اور جانوں کا بھی سودا کر رہے ہیں ان کے خلاف جب تک سیاسی و سماجی شعور اجاگر نہیں کیا جائے گا   اس بیلٹ کی مظلوم اور غیر تعلیم یافتہ عوام  کے ساتھ ظلم و نا انصافی ہوتی رہے گی ۔ اس مظلوم عوام کا یہ کہنا بجا ہے ۔

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

NO COMMENTS