Home بلاگ جڑواں شہر

جڑواں شہر

13

بنی نوع انسان نے ابتدائے آفرینش  سے  ہی  اپنی بقاء کی   تگ ودو  شروع کردی تھی اور یہ  رہتی دنیا تک جاری و ساری رہے گی۔ مختلف ادوار میں اس کی صورتیں بدلتی رہی  ہیں  مگر  ہر نیا عہد پہلےسے بہتر ہوتا چلا گیا۔ اس ارتقائی سفر میں بہت سارے اتار چڑھاؤ آئے لیکن اشرف المخلوقات ہونے کے ناتے سے انسان نے نئے سے نئے جہان پیدا  کیے۔ غاروں اور جنگلوں میں رہنے والے باشندوں نے جب شعور اور آگاہی کی منازل طے کرنا شروع کیں تو تہذیب و تمدن نے جنم لیا اور یوں دنیا میں رہنے سہنے اور میل جول کے طور و اطوار بنے ،کرہ ارض کی تقسیم شروع ہوئی یہ تقسیم بڑی دلچسپ ہے۔ تین حصے پانی یعنی سمندر اور دریا باقی خشک ماندہ جگہ کو بنی نوع انسان نے خود ایسا تقسیم کیا کہ اب ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کے لیے ویز ا درکار ہوتا ہے۔ دنیا کے ممالک نے اپنی اپنی حدوں کے تعین کے لیے دیواریں کھڑی کر لیں اور باڑیں لگا لیں۔

 (Jessica Wapner) جیسیکاویپنر کی کتاب وال ڈیزیز (Wall Disease) یعنی دیوار کی پیدا شدہ بیماریوں کے مطابق جب بھی کوئی ملک سرحدوں پر رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے، دیوار تعمیر کرتا ہے یا باڑیں لگا کر آمدورفت کو روکتا ہے تو اس سے کمزور خطوں اور ملکوں میں ذہنی اور معاشی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ دیواریں کھڑی کرنے والے ممالک انسانیت کی بربادی کا باعث بنتے ہیں۔ براعظم سمندر، دریا، جزائر، خطے، ملک، شہر، گائوں، قصبے، محلوں اور گلیوں تک دنیا تقسیم در تقسیم ہوتی چلی گئی۔ رہن سہن، رسم و رواج اور تہذیب و تمدن سب کچھ بظاہر الگ اور جدا ہے۔ رنگ و نسل مختلف سہی لیکن ہیں سب انسان پھر انسان ہی انسان کا دشمن ٹھہرا۔  ایک دوسرے کے ملک پر قبضہ کرنے، دوسری قوم کو اپنا مطیع بنانے کے لیے جنگ و جدل شروع ہوئی۔ پہلی جنگ عظیم اور پھر دوسری جنگ عظیم بھر پور تیاریوں سے لڑی گئیں۔ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے کا مقولہ سچا ثابت کرنے کے لیے دوسری جنگ عظیم میں امریکا نے جاپان پر ایٹم بم برسا دیے جس سے لاکھوں کی تعداد میں انسان دیکھتے ہی دیکھتے لقمہ اجل بن گئے تھے۔جنگوں کی ہولناکیوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ کبھی ویت نام، ایران، عراق، کویت، أفغانستان، غزہ  اور اب دہشت گردی کے نام پر جنگ نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے  رکھاہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسانیت ختم ہونے کو ہے۔

       دنیا پر حکمرانی کرنے کے نشے میں مبتلا ہر بڑا اور طاقتور ملک دوسرے ملک پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے جنگ کرنے پر تلا ہوا ہے۔جنگ کرتا رہا اور تباہی کی داستانیں رقم کرتا رہا۔ ہزاروں لاکھوں انسانوں کو موت کی نیند سلادیا گیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس دنیا میں انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنائے گئے اور دریاؤں کے پانی انسانی خون سے سرخ کر دیے گئے۔ دہشت و خوف کی نہ چھٹنے والی فضاؤں میں امید کی کرن نمودار ہونے کے لیے دنیا میں امن و آشتی  اور سکون برپا کرنے کے لیے جہدو جہد کا آغاز ہوا۔ جنگ و جدل کرنے والوں کو یہ باور کرایا گیا کہ انسانیت کی بقاء میں ہی سب کا بھلا ہے۔ لہٰذا طاقت کے گھمنڈ میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ الٹا نقصان ہے۔ اس وبا ء سے اپنے آپ کو اور دوسروں کو بچانا بہت ضروری ہے تاکہ یہ دنیا سب کے لیے ایک پرسکون جائے پناہ بن سکے۔ جہاں پر ہر کوئی آزادی سے جی سکے اور ہر طرف ترقی اور خوشحالی ہو۔ دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کو خوش و خرم رکھنا سب کی مشترکہ اولین ذمہ داری ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے تیزی آئی تو پہلے لیگ آف نیشنز (مجلس اقوام) اور پھر جنگ عظیم دوم کے بعد اقوام متحدہ معروض وجود میں آگئی جس کا بنیادی مقصد دنیا میں جنگ اور لڑائی جھگڑوں کو ختم کرکے باہمی اعتماد و تعاون کو فروغ دینے اور مستحکم بنیادوں پر ملکوں کے درمیان دوستی، امن، آ شتی  اور دوستی قائم کرنا تھا۔ ملکوں کے باہمی تنازعات کو مذاکرات سے حل کرنے کے لیے کوششوں کاآغاز کیا گیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا کو ایک عالمی گاؤں ( گلوبل ویلج)میں تبدیل کر دیا ہے۔ فاصلے سمٹ گئے ہیں بظاہر دوریاں ختم ہو  چکی ہیں۔لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ اس کے ساتھ ہی دنیا میں تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے مختلف نوعیت کے منصوبے بھی شروع کیے گئے جن میں صحت، تعلیم کے منصوبے سر فہرست تھے، عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے، خواتین، بچوں اور نوجوانوں کے حقوق سے آگاہی کے لیے مختلف پروگرام اور منصوبے ترتیب دیےگئے۔ مختلف خطوں، علاقوں اور ملکوں کی ثقافت کو روشناس کرنے کے لیے بھی مختلف سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا۔ ان سب منصوبوں کا بنیادی مقصد دنیا میں امن و سکون، بھائی چارے اور اتحادو یگانگت پیدا کرنا ہے۔

 اس نظریے کو فروغ دینے کے لیے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے دنیا بھر میں جڑواں شہروں کا تصور دیا جس کے تحت اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے وہ شہر جو ثقافتی لحاظ سے ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہوں ان شہروں کو جڑواں شہر یا Twin Cityکہا جائے گا۔جڑواں شہر قرار دیے جانے کے بعد دونوں شہروں کی میونسپل یا ڈسٹرکٹ حکومت ایسے اقدامات کریں جن سے  ان  شہروں کے تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جائیں۔ جڑواں شہروں میں ایسی تقاریب منعقد کی جائیں جن میں عوام کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے کیونکہ  اس فلسفے  کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ دونوں شہروں کے عوام ایک دوسرے کے قریب ہوں۔ ان میں پیار محبت اور دوستی بڑھے۔ اس کے ساتھ ثقافتی، تجارتی اور سیاحتی وفود کے تبادلے سے دونوں شہروں کی باہمی ترقی میں مدد مل سکے گی۔ اسی طرح جڑواں شہروں میں پائی جانے والی مشہور سوغاتوں، خاص اشیاء جیسے کہ پودے، درخت، موسیقی اور دیگر اشیاء کے تبادلے سے بھی دونوں کے عوام میں مزید قربت بڑھنے کا سبب بنے گی۔ ایک دوسرے کے قومی یا مقامی تیوہار اور میلے منانے کے پروگرام ترتیب دیے جائیں تاکہ جڑواں شہروں کی ثقافت سےعوام کو آگاہی ہو سکے۔

       دراصل جڑواں  شہر ایک قانونی، سماجی معاہدہ جو کوئی  سے بھی دو ملکوں کے ایک جیسے شہروں کے مابین ہوتا ہے جس کے تحت دونوں ممالک کے شہروں کے درمیان ثقافتی، معاشی اور تجارتی   تعلقات کو مستحکم کیا جاتا ہے۔نیز ان شہروں میں انتظامی، تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے مشترکہ قدریں پائی جاتی ہوں۔ جڑواں شہر کا جدید تصور دوسری جنگ عظیم کے بعد پروان چڑھاجس کے تحت اقوام عالم کے مختلف ملکوں کے درمیان تعلقات کو مستحکم اور مضبوط کرنا تھا۔جڑواں شہر کا آغاز سب سے پہلے 1950ء میں ہوا جب جرمنی کے شہر Ludwigsburg اور فرانس کے شہر Montbeliard کے مابین دونوں شہروں میں Twin City کا معاہدہ ہوالیکن بعد میں امریکا میں Twin City کے تصور کو زیادہ پذیرائی ملی۔ اس معاہدے کی رو سے ثقافتی اور معاشی تعلقات کو فروغ دینا تھا۔ رفتہ رفتہ دنیا بھر میںTwin City جڑواں شہر کے معاہدے ہونا شروع ہو گئے۔ ماہرین عمرانیات کے مطابق انسان کی فطرت ہے کہ وہ سب سے الگ اور جدا رہےلیکن پھر اپنی جبلت کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ سب کے ساتھ مل کر بھی رہنا چاہتا ہے۔ بالکل اسی طرح Twin City جڑواں شہر کے تصور کو تقویت ملی۔ جڑواں شہر کے معاہدے کے تحت امن اور مصالحت کے ذریعے تجارت اور خصوصا” سیاحت کو فروغ دینا ہے۔ تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان بہتر سے بہتر دوستانہ تعلقات استوار ہو سکیں۔ مختلف ممالک کی میونسپل یا ڈسڑکٹ حکومتوں کے درمیان جڑواں شہر کا معاہدہ طے پایا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ دونوں شہروں کے عوام کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر کے امن و سکون کو پروان چڑھایا جائے۔ یعنی عوام کا عوام سے رابطہ اور یہ روابطہ دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب  لانے میں مدد گار ثابت ہو ں گے ۔وہ باہمی میل و جول اور ثقافتی وفود کے تبادلوں سے ایک دوسرے کی ثقافت سے روشناس ہو سکیں گے۔ اس کے ساتھ جڑواں شہروں کے مابین تجارت اور سیاحت کے پروان چڑھنے میں مدد مل سکے گی اور یوں جڑواں شہر خوشحالی اور ترقی کے سفر کی جانب گامزن ہوں گے۔ جڑواں شہروں کے  درمیان  معاہدے  پر دست خطوں  کے لیے  باقاعدہ رنگا رنگ تقریب منعقد ہوتی ہے۔ تقریب کے حاضرین کو جڑواں شہر قرار دیے جانے کا پس منظر بتایا جاتا ہے کہ وہ کون کون سے مشترکہ عوامل ہیں جن کی بناء پر یہ جڑواں شہر کہلائے گئے ہیں۔ اب یہ دونوں شہروں کے عوام کی مشترکہ ذمہ داری ہو گی کہ وہ معاہدے کو برقرار رکھنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ خصوصاًثقافت اور سیاحت کے فروغ کے لیے زیارہ سے زیادہ وفود کا تبادلہ ہو۔ دونوں ملکوں کے درمیان ویزے کے حصول میں حائل مشکلات کو حل کرتے ہوئے اس  کا حصول آسان بنایا جائے۔ دونوں ملکوں کے قومی دن پورے جوش و جذبے سے منائے جائیں۔ ان تقریبات میں عوام کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے مختلف پروگرام نشرکیے جائیں ان پروگراموں   میں جڑواں شہروں کی سیاحتی، انتظامی، معاشی، تجارتی، تعلیمی اور ثقافتی سرگرمیوں کو اجاگر کیا جائے تاکہ عوام میں شعور اور آگاہی پیدا ہو اور وہ جڑواں شہر کے درجے پر فائز ہونے کے فائدے اٹھا سکیں۔

       جڑواں شہر قرار دیے جانے والے شہروں میں عموماًایک یادگار (Monument)بھی تعمیر کی جاتی ہےجس پر ایک تحریر کندہ کی جاتی ہے اور اس میں   اس شہر کو دوسرے ملک کے شہر سے جڑواں قرار دیے جانے کا احوال بتایا جاتا ہے۔ اس یادگار کے اردگرد دونوں ملکوں کے قومی پرچم مستقل طور پر لہرا دیے جاتے ہیں۔ اس طرح دونوں ملکوں کے عوام کے لیے یادگار جاذب نظر اور پر کشش بن جاتی ہے۔ ایک لحاظ سے یہ یادگار تفریحی مقام بن جاتی ہے جس سے عوام میں ایک خوشگوار احساس پیدا ہوتا ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام میں محبت، یگانگت اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور وہ دوستی کے ایک لازوال رشتے میں بندھ جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ ترقی کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں جس سے جڑواں شہروں میں بسنے والی عوام خوشحال ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جڑواں شہر کے تصور کو ہمارے ہاں اب تک صحیح طور پر پذیرائی نہیں مل سکی اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کبھی کسی ملک کی میونسپل یا ڈسٹرکٹ حکومت کے ساتھ جڑواں شہر ہونے کا معاہدہ کیا جاتا ہے اس تاریخی موقع پر عوام کو تقریب معاہدہ میں شامل نہیں کیا جاتا صرف حکومتی اور انتظامیہ کے نمائندےموجود ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری عوام کو جڑواں شہر کے بارے میں آگاہی ہی نہیں ۔یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ عوام کی بھلائی اور فلاح و بہبود کرنے کی دعویدار حکومت عوام کو شعور دینے کے اقدامات نہیں کرتی۔ جڑواں شہر کے تصور کی طرح اور بھی تصورات ہیں جن کے بارے میں اگر عوام کو آگاہی اور شعور مل جائے تو بحیثیت مجموعی ہماری قوم دیگر ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑی ہو سکتی ہے۔

       بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو دنیا کے مزید شہروں کو Twin City  جڑواں شہر بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ دنیا بھر میں جہاں بھی پاکستانی بستے ہیں اور پاکستان کے جس بھی شہر سے تعلق رکھتے ہوں انھیں چاہیے کہ وہ اپنے شہر کی خصوصیات وہاں تلاش کریں۔ وہاں کی میونسپل حکومت کو اپنے شہر کے جغرافیہ، ثقافت، سیاست اور انتظامیہ سے متعلق آگاہی دیں تاکہ وہ جڑواں شہر کے لیے قائل ہو سکیں۔ بیرون ملک پاکستانی سفارخانے اس سلسلہ میں بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے سیاحت کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں میں جڑواں شہر Twin City کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ اس کے ذریعے دنیا بھر کے سیاح پاکستان کے قدرتی حسن کی طرف متوجہ ہوں گے۔ جتنے زیادہ سیاح پاکستان آئیں گے اتنا ہی زرمبادلہ بھی کمایا جا سکے گا اور اس کے ساتھ پاکستان کا (Soft Image) اجاگر ہوگا۔

       حال ہی میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے لاہور کو  "شہر ِادب” قرار دیا ہے۔ لاہور یہ اعزاز پانے والا  پاکستان کا پہلا شہر ہے  اور یہ ایک بڑا عالمی  اعزاز ہے۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ  "ہر شہر میں ایک سے زیادہ شہر آباد ہوتے ہیں  "لاہور کی ادبی سرگرمیوں کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جانا اس امر کی غما زی کرتا ہے کہ لاہور کا علمی، ادبی اور ثقافتی ورثہ کس قدر کشش کا حامل ہے۔

       پاکستان میں بھی جڑواں شہر ہیں جس میں لاہور اور کراچی دنیا کے ملکوں کے مختلف شہروں کے ساتھ مماثلت رکھنے میں سر فہرست ہیں۔ وطن عزیز کے  اس وقت 15 شہر جڑواں شہر Twin City کے درجے پر فائز ہیں۔جبکہ اسلام آباد اور راولپنڈی کو بھی جڑواں شہر کہا جاتا ہے۔

1۔   لاہور  2۔   کراچی        3۔   اسلام آباد            4۔   پشاور  5۔   ملتان

6۔   فیصل آباد      7۔   سرگودھا            8۔   حیدر آباد             9۔   رحیم یار خان

10۔ ساہیوال      11۔ سیالکوٹ             12۔ میرپور        13۔ سکردو 14۔ گلگت

15۔ گوادر

لاہور کے جڑواں شہر:  Amol )ایمول( ایران، (Bogota) بوگوٹہ(Colombia) کولمبیا، (Bukhara)  بخارا (Uzbekistan)  ازبکستان،  (USA) امریکہ  (Chicago)  شکاگو،  (Spain) سپین  (Cordoba) کارڈوبا،  (Tajikistan) تاجکستان  (Dushanbe) دوشنبے،  (Morocco) مراکش  (Fez) فیض،  (UK) برطانیہ  (Glasgow/Scotland) گلاسکو/اسکاٹ لینڈ،  (UK) انگلینڈ  (Hounslow) ہن سلو،  (Iran) ایران  (Isfahan) اصفہان،  (Turkey) ترکی  (Istambul) استبول،  (Uzbekistan) ازبکستان  (Samarkand) سمر قند،  (North Koria) شمالی کوریا  (Sariwon) ساری وان،  (China) چین  (Xian) ذی اون

کراچی کے جڑواں شہر:        (USA) امریکا  (Houston) ہوسٹن،  (Iran) ایران  (Mashad) مشہد،  (Mauritius) موریشئس  (Port Louis) پورٹ لوئیس

اسلام آباد کے جڑواں شہر:     (UAE) متحدہ عرب امارات  (Abu Dhabi) ابو ظہبی،  (Amman) عمان  (Jardan) اردن،  (Turkey) ترکی  (Ankara) انقرہ،  (China) چین  (Beijing) بیجنگ،  (Gawadar) گوادر،  (China) چین  (Puyang) پے ینگ

ملتان کے جڑواں شہر:         (Turkey) ترکی  (Konya) قونیہ،  (Iran) ایران  (Rasht) راشت

ساہیوال کے جڑواں شہر:      (England)برطانیہ  (Rochdale) روشڈیل

سکردو کے جڑواں شہر:        (Italy) اٹلی  (Cortina d’ Ampezzo) کورٹینا ڈی ایمپیزو۔

 اس سال 31 اکتوبر کو عالمی یوم شہر پائیدار تعمیر اورشہروں کی بحالی کے عنوان کے تحت منایا گیا تھا لیکن شہروں کی بحالی اورپائیدار ترقی کے لیے صرف دن ہی نہیں منایا جانا چاہیے بلکہ  انتظامیہ اورشہریوں کومل کر کردار اداکرنا  چاہیے۔خصوصاً شہروں کوموسمیاتی تبدیلی سے بچانے کے لیے نوجوان آگے بڑھیں،عالمی سطح پر شہروں کومزید بااختیار بنانا چاہیے  تاکہ موسمیاتی تبدیلی، بڑھتی آبادی ،ماحولیاتی آلودگی جیسے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کوششوں کو تقویت مل سکے۔