ملک میں قائم دینی مدارس کی رجسٹریشن کے طریقہ کار پرایک مرتبہ پھرتنازع اٹھ کھڑاہواہے یہ تنازع پہلی بارنہیں ہواہے اس سے قبل بھی متعددباریہ معاملہ اختلافات کاشکاررہاہے لیکن اس باریہ معاملہ اس لیے مختلف ہے کہ مدارس رجسٹریشن کے حوالے سے حکومت اپنے ہی پاس کردہ بل سے منحرف ہوگئی اورصدرمملکت نے مدارس بل پراعتراض لگاکراسے واپس کردیاہے حالانکہ یہ بل حکومت نے خودڈرافٹ کرکے پہلے کابینہ نے منظور کیااورپھرسینٹ وقومی اسمبلی سے دوتہائی اکثریت سے پاس کروایاتھا ۔
سوال یہ ہے کہ حکومت اپنے پاس کردہ بل سے کیوں منحرف ہوئی ہے اچانک ایسی کیاافتادآن پڑی ہے کہ 26ویں ترمیم میں پاس کردہ ایک بل کے خلاف حکومت خود سامنے آنے کی بجائے سرکاری سرپرستی میں علماء کے ایک گروہ کوسامنے لے آئی ہے حالانکہ جب یہ بل ڈرافٹ یاپاس کیاجارہاتھا توحکومت نے ان علماء سے مشاورت تک نہیں کی، انہیں اعتمادمیں نہیں لیا ۔پھرہمارے یہ علماء بھی ماشاء اللہ ڈیڑہ ماہ ستوپی کرسوئے رہے پھر انہیں اچانک کہیں سے اشارہ ملاتومیدان میں نکل آئے۔ وہ بھی کمزورمئوقف اوردلائل کے ساتھ
اختلاف کیاہے
اتحادتنظیمات مدارس دینیہ اورمولانافضل الرحمن چھبسویں ترمیم میں پاس کردہ بل کے مطابق ایک بار پھر سوسائیٹز ایکٹ 1860کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کروانا چاہتے ہیں جیسا کہ ماضی میں ہو رہا تھا، تاہم اس کے ساتھ انھوں نے ایک ترمیم بھی تجویز کی ہے۔جبکہ سرکاری سرپرستی میں جمع ہونے والے علماء یاتین سال قبل بننے والے نئے بورڈزکے ذمے داران عمران خان کے دورمیں بننے والے نظام کے تحت چلناچاہتاہے یعنی وزارت تعلیم کے تحت ۔
مدارس رجسٹریشن کاپس منظر
ملک میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ ہمیشہ سے ایک پیچیدہ موضوع رہا ہے۔ ماضی میں ملک کے طول و عرض میں پھیلے مدارس کی رجسٹریشن سوسائیٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے تحت ہوتی تھی، اور مدارس کی انتظامیہ کو اس کام کے لیے متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنریااسسٹنٹ ڈائریکٹرانڈسٹریز کے دفتر جانا پڑتا تھا۔یہ معاملہ اسی طرح چلتارہا کہ جنرل مشرف کے دور اقتدار میں جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہوا تو مدارس کے نظام میں اصلاحات کے نا م پردبائوبڑھایاگیا حکومت اوراتحادتنظیمات مدارس دینیہ کے درمیان کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد اسی سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کے ایک فارمولے پراتفاق ہواتھا۔
اکتوبر 2019 میں پاکستان تحریک انصاف کے دورِ اقتدار میں عالمی حالات کے پیش نظرپھرمدارس کی قیادت پردبائوڈالااور حکومت نے وزارت داخلہ، سیکیورٹی ایجنسیوں، صوبوں، اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ پانچ سال سے زائد طویل مشاورت کے بعد دینی مدارس کو تعلیمی ادارے سمجھتے ہوئے انھیں محکمہ تعلیم کے تحت ریگولیٹ کرنے کا ایک معاہدہ کیا ۔ اسی کے تحت رجسٹریشن کے لیے وفاقی محکمہ تعلیم کے تحت ایک نیا ڈائریکٹوریٹ قائم کیا گیا جس کا نام ڈائریکٹوریٹ آف ریلیجیس ایجوکیشن ہے اور اس کی سربراہی اِس وقت سابق میجر جنرل غلام قمر کر رہے ہیں۔
اس ڈائریکٹوریٹ کے تحت مدارس کی رجسٹریشن شروع کی گئی مگربعدازاں اتحادتنظیمات مدارس دینیہ نے اپنے اعتراضات دورنہ ہونے کی بناء پراس نئے نظام کے تحت رجسٹریشن کروانے سے انکارکردیا ۔اس موقع پرحکومت نے مدارس کی قوت توڑنے کے لیے 2021میںمدارس کے دس نئے بورڈزکھڑے کردیئے اوران کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کاآغازکردیانئے بورڈزکے مدارس کی تعدادکتنی ہے؟ یہ بورڈزکی تعریف پربھی پورانہیں اترتے۔ کچھ کے پاس توسوائے اپنے مدرسے کے اورکوئی مدرسہ ہی موجودہی نہیں جبکہ کسی کے پاس ایک مدرسہ بھی نہیں ہے بلکہ نہ تودفترہے اورنہ ہی کوئی ریکارڈ وغیرہ صرف کاغذی بورڈ ہے۔ اس حوالے سے ڈی جی آرای کسی قسم کی معلومات دینے کوتیارنہیں ہے ۔
دوسری طرف ڈائریکٹوریٹ آف ریلیجیس ایجوکیشن کادعوی ہے کہ ان کے ملک بھر میں 16 دفاتر قائم ہیں جہاں مدارس کی رجسٹریشن کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ ڈائریکٹوریٹ کے مطابق ان کے پاس 18 ہزار مدارس رجسٹرڈ ہیں، جن میں ان مدارس کے مطابق 20 لاکھ سے زائد طلبا زیرتعلیم ہیں۔اگراس دعوے کودرست مان لیاجائے توپھرحکومت کوپریشان نہیں ہوناچاہیے کیوں کہ اکثرمدارس رجسٹرڈہوچکے ہیں مگر حقائق اس کے برعکس ہیں ۔
مدارس بل کی ضرورت کیوںپیش آئی
پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک طرف حکومت عمران خان کے دورحکومت کی تمام نشانیاں ختم کررہی ہے مگردوسری طرف عمران خان کے مدارس منصوبے کوبرقراررکھنے کے لبیے اصرارکررہی ہے اس کی وجہ کیاہے ؟
دوسری بات یہ ہے کہ حکومت کھل کربتائے کہ وہ کسی عالمی دبائوکاشکارہے کہ پاکستان پر ایک بار پھر ایف اے ٹی ایف کی پابندیاں لگنے اور جی ایس پی پلس، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں سے ممکنہ طور پر ردعمل کے خدشے کی وجہ سے اس قانون پردستخط نہیں کیے گئے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام نے پی ٹی آئی دورِ حکومت میں علما اور حکومت کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں مدارس کو وزارتِ تعلیم کے ماتحت کرنے کی مخالفت کی تھی اوراسے مدارس کے خلاف سازش قراردیاتھا ۔بعدازاں جب وزار ت تعلیم کے تحت رجسٹریشن کاآغازہواتومعاہدہ کرنے والے علماء ہی اپنے اعتراضات اورمسائل حل نہ ہونے کی بناء پراس معاہدے سے پیچھے ہٹ گئے تھے ۔
وزارت تعلیم میں رجسٹریشن ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ہورہی ہے ،جوکہ ایک عارضی بندوبست ہے جس کی مضبوط قانونی حیثیت نہیں ہے حکومت کسی بھی وقت یہ آرڈرواپس لے سکتی ہے اب جس ادارے کی اپنی حیثیت ڈماڈول ہووہ مستقل اداروں کاتحفظ کیسے کرے گا ؟
ایک ااعتراض یہ ہے کہ وزارت تعلیم میں ڈی جی آرای یعنی ڈائریکٹوریٹ قائم کیاگیاہے حالانکہ مدارس رجسٹریشن کے سلسلے میں کوئی الگ ڈائریکٹریٹ قائم کرنے کی بات تو سرے سے معاہدے میں شامل ہی نہیں تھی ۔دیگرتعلیمی اداروں کے مقابلے میں اس میں بھی مدارس کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جارہاہے ۔
اپریل 2023 میں عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم ہونے اور پی ڈی ایم کی حکومت بننے کے بعد بھی جے یو آئی اوراتحادتنظیمات مدارس کی قیادت نے وزیراعظم شہبازشریف سے مشاورت کے بعد مدارس کے متعلق ترمیمی بل لانے کی کوشش کی تھی جس میں انہیں کامیابی نہیں ہوسکی تھی۔مولانا فضل الرحمان یہ دعوی کرتے ہیں کہ اس وقت بھی ترمیمی بل کی منظوری کچھ قوتوں کی جانب سے رکوائی گئی تھی۔
وزارت تعلیم سے منسلک ہونے کے فوائد
جوعلماء مدارس کووزارت تعلیم کے ساتھ منسلک کرنے پر اصرارکررہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مدارس چوں کہ تعلیمی ادارے ہیں اس لیے انہیں وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک ہوناچاہیے ،دوسرایہ کہ مدارس اگر وزارت تعلیم کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں تو ایک فائدہ یہ ہے کہ سرکاری فنڈز ملتاہے جیساکہ مفتی عبدالرحیم صاحب نے فرمایاہے کہ انہوں نے مدارس میں 13کروڑروپے تقسیم کیے ہیں ۔ایک فائدہ یہ ہے کہ مدارس کے اسناد کی مقبولیت میں اضافہ متوقع ہے۔(علماء ان فوائدکومدارس کی اساس کے خلاف قراردیتے ہیں )
سوسائیٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کیا ہے
یہ ایکٹ برطانوی دور میں نافذ ہوا تھا جس کے بنیادی مقاصد میں کمیونٹی کی ترقی، فنی اور ثقافتی ورثہ کا فروغ، غربت کی روک تھام، صحت و زندگی کے بچاو کی خدمت، میں تعلیم و تعلم کا فروغ، مطالعاتی سرگرمیاں، مذہبی و ملی ہم آہنگی کا فروغ، ماحولیات کا تحفظ اور ضرورت مندوں کی مدد و تعاون وغیرہ شامل ہیں۔ ان مقاصد کے پیش نظر ایسے اداروں کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے جیسا کہ رفاہی ادارے، سماجی تنظیمیں، مساجد، گوردوارے، ٹیمپلز، گرجا گھر، لائبریری، تعلیمی ادارے، ادبی و مذہبی انجمنیں، فلاحی اور رفاہی امور کے دیگر شامل ہوسکتے ہیں جن کا بنیادی مطمح نظر ان اداروں سے پیسہ کمانا یا بزنس کرنا نہیں بلکہ بغیر کسی مفاد و غرض کے تعاون کرنا ہوتا ہے اور تعاون حاصل کرنے کی کئی مالی صورتیں جیسا کہ عطیہ، زکو و خیرات کی وصولی ہو سکتی ہے۔
یہ ایکٹ آج بھی پاکستان میں نافذ ہے اور اس کے تحت فلاحی اور غیر منافع بخش ادارے اپنی رجسٹریشن کروا کر قانونی طور پر تسلیم شدہ حیثیت حاصل کرتے ہیں۔یوں دیکھا جائے تومدارس مکمل طوراس ایکٹ کے تحت آتے ہیں اورمدارس ایک ایکٹ کی کماحقہ تعریف پرپورااترتے ہیں جبکہ وزارت تعلیم میں مدارس کی حیثیت محض ایک تعلیمی ادارے کی سی ہے ۔
مدارس اس ایکٹ کے سیکشن 21 کے تحت رجسٹریشن کرواتے تھے جو، 2004 میں اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے دور میں اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان اور حکومت کے مابین کئی مہینوں کے مذاکرات کے بعدترمیم عمل میںلائی گئی تھی ۔
اب نئے ترمیمی بل میں کیا ہے؟
یہ بل 26ویں آئینی ترمیم کی حمایت کے معاہدے کا حصہ ہے، جو اکتوبر 2024 میں جمیعت علمائے اسلام اور حکومت کے درمیان طے پایا ہے۔ نئے ترمیمی بل کی بعض دیگر شقوں کے مطابق:اس بل میں 1860 کے سوسائٹی ایکٹ کی شق 21 کو تبدیل کرکے دینی مدارس کی رجسٹریشن کے نام سے ایک نئی شق شامل کی گئی ہے۔اس شق میں کہا گیا ہے کہ ہر دینی مدرسہ چاہے اسے جس نام سے پکارا جائے اس کی رجسٹریشن لازم ہوگی، رجسٹریشن کے بغیر مدرسہ بند کردیا جائے گا۔
اس بل میں شامل شق کے مطابق سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024 کے نفاذ سے قبل قائم ہونے والے مدارس کو رجسٹرڈ نہ ہونے کی صورت میں چھ ماہ کے اندر اپنی رجسٹریشن کرانا ہوگی۔ اسی طرح اس بل کے نفاذ کے بعد قائم ہونے والے مدارس کو رجسٹریشن کے لیے ایک سال کا وقت دیا گیا ہے۔
بل میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ایک سے زائد کیمپس پر مشتمل دینی مدارس کو ایک بار ہی رجسٹریشن کرانی ہوگی۔ اس کے ساتھ ہر مدرسے کو اپنی سالانہ تعلیمی سرگرمیوں کی رپورٹ رجسٹرار کو جمع کرانے،۔ہر مدرسے کے کھاتوں کا آڈٹ ایک آڈیٹر سے کروانا اور آڈٹ رپورٹ رجسٹرار آفس کو جمع کروانا لازمی ہو گا۔
اس بل کے مطابق کسی دینی مدرسے کو ایسا لٹریچر پڑھانے یا شائع کرنے کی اجازت نہیں ہو گی جو عسکریت پسندی، فرقہ واریت یا مذہبی منافرت کو فروغ دے۔
بل میں ہر مدرسے کو اپنے وسائل کے حساب سے مرحلہ وار اپنے نصاب میں عصری مضامین شامل کرنے کا پابند بھی کیا گیا ہے۔ اس بل کے تحت رجسٹرڈ ہونے والے مدارس کو کسی دوسرے قانون یا ادارے کے تحت رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہوگی۔