تحریر : فارینہ حیدر
ایک حدیث میں اللہ کے نبی نے ارشاد فرمایا کہ طعنے دینے والا، تضحیک کرنے والا جب تک وہ وقت خود نہ دیکھ لے تب تک اسے موت نہیں آتی ہے ۔ شروعات کرتے ہیں 2016 سے، فاروق ستار نے 2016 میں پارٹی کا مکمل اختیار رکھنے کے لیے پارٹی کے ایکٹ میں ترمیم کی ، کیوں کہ بانی ایم کیو ایم پر اداروں کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی ۔
فاروق ستار کے بعد کنونیئر خالد مقبول ہوئے ۔ ہم روز سنتے تھے لندن سے پیغام آتا تھا فلاں غدار ، فلاں غدار پر سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیوں کہا جا رہا ہے ۔ پھر جب واسطہ پڑا تو اصل بات سمجھ میں آئی کہ ہوتا کیا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے عہدیداروں کو خاص کر خالد مقبول اور ان کی ٹیم کو مخالفین کی بہت آگ لگتی ہے کہ بس جس نے چوں بھی کیا اس کو برباد کر دوں ۔
اب یہ سب مخالفین کے پیچھے لگتے تھے جب یہ لوگ کسی بھی طرح نہیں مانتے تھے تو ان کے مخالفین ان کی رپورٹ کرتے تھے ۔ جب ان کی پکڑائی ہوتی تھی تو فوراً لندن والوں کا نام لیتے تھے کہ پیچھے سے آرڈر آئے ہیں ہم نے کچھ نہیں کیا ۔ اپنے قائد کو بحال نہ ہونے دینے میں کنونیئر اور ان کے لوگوں کا ہی ہاتھ ہے ۔ ان سب کی سیاست ساس بہو والی چلتی ہے جو ہمیں اس عرصے میں سمجھ آئی ۔ اگر ان کے مخالفین کی حکومت سے نہیں بنتی تھی تو مخالفین کو سبق سکھانے کا فریضہ بھی یہی انجام دیتے تھے۔
خیر اب پرانی بات پر آ جاتے ہیں ، 2016 میں پارٹی کنونیئر فاروق ستار تھے ، انھوں نے بھی کچھ شور شرابا کیا پھر ٹیسوری کو پارٹی میں لائے لیکن ان کو پارٹی کے ایکٹ میں ترمیم کرنے کے جرم میں رابطہ کمیٹی نے کام نہیں کرنے دیا ۔ پہلے ان سے کنونیئر شپ لی گئی، جب فاروق ستار نے پیسوں کا حساب مانگا تو پھر ان کی مئیر وسیم اختر صاحب سے ہاتھا پائی ہوئی، خیر بد ترین جھگڑوں کے بعد ان کو پارٹی سے نکال دیا گیا ۔ بعد میں انھوں نے ایم کیو ایم بحالی تحریک کے نام سے ایک تحریک کا آغاز کیا اور تقریباً 7 سال بعد پارٹی میں بحال ہوئے اپنے ساتھ سابق میئر کراچی مصطفی کمال کو بھی لے کر آئے جو ابھی بھی ایک سیاسی تنظیم کے چئیرمین ہیں ۔
کہانی کا لب لباب یہ ہوا کہ صرف پارٹی ایکٹ میں ترمیم کرنے کے جرم میں فاروق ستار کا حشر نشر ہو گیا ان کو طعنے، طشنے دیئے گئے، غدار کا لقب دیا گیا یعنی جو کچھ کر سکتے تھے کرتے گئے ۔ جس کی وجہ سے پارٹی کا ووٹر، سپورٹر، کارکنان ، شہداء کے گھرانے سب رل گئے ۔
اب آتے ہیں نئے دکھ پر، اس بار پارٹی ایکٹ میں ترمیم نہیں کی گئی ہے بلکہ پارٹی کا بنیادی ڈھانچہ ہی تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ اب کنونیئر نہیں پارٹی چیئرمین ہو گا اور چئیرمین ڈاکٹر یعنی خالد مقبول ہیں ۔ معاملہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم کسی کی ذاتی ملکیت تو ہے نہیں جیسے ن لیگ اور پی پی پی ہے ۔ ان کے پاس الیکٹیبلز ہوتے ہیں ووٹرز نہیں ہوتے اور یہ لوگ اپنا زاتی پیسہ خرچ کر کے آتے ہیں ۔ لہذا چودھری اور سائیں ہوتے ہیں ۔ ایم کیو ایم والے کیا خرچ کر رہے ہیں ؟، سوائے ہماری چیزوں پر قبضہ کرنے اور کرانے کے ۔
میرے سوتیلے چاچا شاکر علی کو ہمارا پیسہ نہیں دینا تھا اور میرے والد کا نام اپنے لیے استعمال کرنا تھا تو اس نے پارٹی میں اپنے آپ کو میرے والد کا وارث ڈکلیئر کروایا جب کہ زندگی میں اتنا اختلاف تھا کہ کبھی گھر کسی تقریب میں نہیں آیا اور مرتے ہی اس آدمی کا وارث ہو گیا ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے اس کی تصدیق کی جب کہ ان سب کو معلوم تھا کہ پیسوں پر تنازعہ ہے اور عدالت میں سول کیس چل رہا ہے ۔
شاکر کے ظلم نے ہمیں صرف معاشی طور برباد نہیں کیا بلکہ معاشرتی لحاظ سے سخت مشکلات میں مبتلاء کر دیا ۔ ہم 12 سالوں سے والد کے زاتی پیسے سے لیکر اپنے روزگار تک کے لیے لڑ رہے ہیں ۔ ہمارا زاتی معاملہ چونکہ سیاسی بنا دیا گیا اس لیے ہمارے کاغذات ہماری شہادتیں ایک سیاسی کارکن سے جوڑ دی گئی جو کہ ہمارا بدترین دشمن تھا۔
آج تک سیاسی طور پر ایک 62 سالہ شخص کو اپنے صرف 6 سال بڑے سوتیلے بھائی کا وارث قرار دیا جا رہا ہے۔ روزگار، ہراساں نہ کرنے کے ساتھ حفاظت کے آرڈرز ہے لیکن حکمرانوں سے کون محفوظ رہ سکتا ہے بھلا ؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ان کے ہیڈ کا کیا مسئلہ تھا جو ہمارے گھرانے کے لیے اتنی مشقت کی ۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے ہمارے جیسے اور بھی کئی گھرانے ہیں جن کے زاتی معاملات میں ایسے ہی دخل اندازی کی جارہی ہیں۔ حالات تو یہی بتا رہے کہ پورے کراچی کو ان کے زاتی معاملات پر گھیرا ہے ۔
یہ قبضے کی جنگ 12 سال سے چل رہی تھی جو اب چئیرمین شپ پر مکمل ہوئی ہے ۔ ان کے کچھ ساتھی تو دبئی میں کیک کاٹ رہے ہیں ۔ باقی میرا سوتیلا چاچا اور ان کے ساتھی یہاں کراچی میں کیک کاٹ رہے ہیں ، ایک بات یاد دلاتے چلے خالد مقبول حیدرآباد سے ہیں ، کراچی بعد میں آئے تھے ۔ یہ کچھ عرصہ کراچی میں رہے ، پھر یہ امریکا چلے گئے اور 9 جون 2012 میں امریکا سے واپس آئے یعنی کراچی میں مسلسل رہتے ہوئے ان کو صرف 12 برس ہوئے ہیں ۔ یہ 12 سال ہم کراچی والوں پر کیسے گزرے ہیں یہ ہم جانتے ہیں اور اللہ جانتا ہے ۔
اس وقت سوچنے اور کام کرنے کا وقت ایم کیو ایم کے کارکنوں، عہدیداروں کا ہے کیونکہ باہر بیٹھا ہوا ووٹر سپورٹر ہو یا ہمدرد وہ صرف دور سے بیٹھ کر ہائے ہائے کر سکتا ہے اور کچھ نہیں کر سکتا ۔ اسوقت عالم یہ ہے کہ کراچی یونیورسٹی کے چپے چپے پر پیپلز پارٹی بیٹھی ہے ۔ وہ ہمارے کام نہیں کر رہی ۔ کورٹ کے آرڈرز بھی رد کر رہی ہے کیونکہ صوبہ خود مختار ہے ۔ حکومت ان کی ہے، عدالتیں ان کے نیچے آتی ہیں ۔ ہم صرف درخواست پر درخواست کر سکتے ہیں ۔ جب تک سرکار ہامی نہیں بھرتی تب تک جج آرڈر بھی نہیں کرتے اور اگر آپ پارٹی کی طرف جاتے ہیں تو آپ کا واسطہ سب سے پہلے چئیرمین اور اس کی ٹیم سے پڑے گا جن کو سیٹیں تو ہماری بھلائی کے لیے دی ہے لیکن ان کے کام دیکھے تو برائی ہی نظر آرہی ہے۔
اب ہم سب کے درد کا مدوا کون کرے؟ یا تو ہم سب اللہ توُ مولا توُ کریں یا اس کا دوسرا حل پارٹی کارکنان کا ایک ساتھ استعفیٰ دینے کا ہے ۔ ان کے تو علاج بھی لاکھوں روپے کے ہوتے ہیں۔ اس لیے زندگی بھی لمبی ہے۔ یہ سب کراچی یونیورسٹی کے ریٹائرڈ بوڑھوں کی طرح بیٹھے رہے گے کھاتے رہے گے ۔
پاکستان ایسے ہی چلے گا ۔اس وقت پورا پاکستان فنڈز اور سبسیڈیز پر چل رہا ہے جس کو ملے گا کھا لے گا ۔مزدوری کے لیے پارٹی نے ہمارا پتہ دے دیا ہے یہ لوگ ہمیں زلیل کروا کر اور مزدوری کروا کر بوڑھا کر کے مار دے گے ۔ اپنی بقایا محنت اور جوانی سنبھال لیں کیوں کہ یہ سب تو بونس پر چل رہے ہیں ۔ جتنا وقت مل جائے اچھا ہے ۔ اس فریب میں ہر گز نہ آئیے گا کہ باہر چلے جاؤں یہ راگ سنتے سنتے کان پک گئے ہیں ۔
کیا لوگ پہلے ملک سے باہر نہیں جاتے تھے ؟ کیا کسی دباؤ میں جاتے تھے؟ جو کئی سالوں سے باہر رہ رہے وہ تو نہیں کہہ رہے کہ ہم کسی دباؤ میں نکلے تھے ۔ پھر اب کیوں باہر کا اتنا شور ہو رہا ہے جبکہ فی الوقت جو پاکستانی جا رہے ہیں وہ زیادہ تر ڈرائیوری ، مالی، چپڑاسی کی نوکریوں پر جا رہے ہیں، جب کہ ایک بڑی تعداد تو بھکاریوں کی پہنچی ہوئی ہے ۔ ڈنکی لگا کر جانے والوں کی آئے روز لاشیں مل رہی ہیں پھر اتنا پروپیگنڈہ کیوں ہو رہا ہے ؟ ۔ معاملہ کیا ہے؟ قصہ یہ ہے کہ کسی کو ٹکنے ہی نہیں دوں اگر یہاں روزگار ہے تو کیوں ہے ۔ باہر بھیج دوں اگر باہر ہے تو اس کا تو ویسے بھی نہیں پتا کہ کیا ہو گا ۔ پھر آخر کتنے لوگ باہر جائے گے ؟ ہر کوئی تو باہر بھی نہیں جا سکتا کسی پر جوان بہنوں کی زمہ داری، کسی پر بوڑھے ماں باپ کی زمہ داری کسی کے بچے کوئی سنبھالنے والا نہیں تو ، اس کا حل بھاگنا نہیں ہے بلکہ اپنے معاملات درست کرنا ہے ۔