عظیم برطانیہ میں پہلا قدم:
چہار جانب نیلے پانیوں میں گھرے پانچ براعظموں پر صدیوں تک اپنی دھاک بٹھائے رکھنےوالے ایک چھوٹے سے ملک کی آزاد فضاؤں میں قدم رکھنے کا احساس ہی دلِ مضطر کو گرفتہ کئے جارہا تھا۔
کم و بیش آٹھ دہائیاں قبل جس استعماری سلطنت سے آزاد ہونے کا خواب غلام آنکھوں میں سجائے ہمارے پرکھوں نے لازوال قربانیوں سے دریغ نہ کیا تھا اسی کی سرزمین پر مجھے ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ میرے لئے اس کانفرنس میں شرکت سے زیادہ اہم اس قوم اور سلطنت کا مشاہدہ و مطالعہ کرنا تھا کہ جس نے ہمیں صدیوں غلامی کے شکنجے میں کسے رکھا تھا۔
اس میں کوئی شک نہ تھا کہ ہندوستان میں ایک ہزار سال حکومت کرنے والی اور الہامی سچے دین کی وارث قوم اپنی موشگافیوں اور غفلتوں کے سبب دنیا کے سٹیج سے پس منظر میں جانے کے لئے تیار تھی اور قوموں کے عروج و زوال کے فطرتی قانون کے تحت قریب تھی کہ سیادت کے منصب سے بے دخل کر دی جاتی مگر جس قوم کو اس پر مسلط کیا گیا وہ بھی یقینا ایسی خوبیوں یا صلاحیتوں کی مالک ضرور ہوگی جس کے سبب قدرت نے ہم سے چھین کر یہ قیادت انہیں سونپی تھی۔ چنانچہ واضح ہدف اس قوم کو جاننا تھا جس نے دنیا میں اپنا آپ منوا کر اپنی حکومت سات سمندر پار پھیلائے رکھی تھی۔
خواہش تھی کہ جانا جائے کہ یہ سلطنت جس نے اس قدر عروج دیکھا اس کے زوال کا سفر کیوں کر جاری ہے اور کیا بنیادی غلطیاں ہیں جس کو اختیار کرنے کے سبب اب یہ قوم اور تہذیب بھی اپنی آخری سانسیں بھر رہی ہے۔
کن اسباب کے تحت آج یہ خود اپنے ہاتھوں اپنی بربادی کا رونا رو رہی ہے۔آخر ایسا کیا ہوا پھر کہ جس شاخ پہ آشیانہ بنانے کی تمنا اہل برطانیہ نے کی تھی وہی شاخِ نازک آج اپنی کمزوری کا ماتم کر رہی ہے۔
انڈو پاکستان برطانوی جوڑا:
مانچیسٹر ائر پورٹ پر پرواز نے قدم جمائے تو نماز فجر کا وقت گزرا جاتا تھا۔ تیز تیز قدم بڑھاتے سامان کے حصول کے لئے موجود قطار تک پہنچا تو کافی ازدہام تھا۔ ہر کسی کو پہلے نکلنے کی جلدی تھی۔ میں قطار میں لگنے کی بجائے ذرا دور کھڑا ہوا کہ مبادا سامان نظر آئے تو آگے بڑھوں۔ کچھ دیر گزری تو اپنے قریب ایک ادھیڑ عمر شخص کو اپنی اہلیہ سے محو گفتگو پایا کہ سامان آئے تو کسی ٹرالی میں ڈال کر باہر لے جانے کا بندوبست کریں۔ اندازا ہوا کہ دونوں بھاری بھرکم سامان کو مشین سے اتارنے اور لے جانے پر فکرمند ہیں۔ اسی سمے ان کا ایک بیگ آیا جسے اٹھانے کی ناکام کوشش کرتے دیکھ کر میں نے ہاتھ آگے بڑھا دیا اور کچھ کہے بغیر بیگ اٹھوا کر قریب کھڑی ٹرالی پر رکھ دیا۔ وہ دونوں کن انکھیوں سے مجھے دیکھنے لگے۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ پریشان مت ہوں اگر دوسرے بیگ بھی آئے تو میں رکھوا دوں گا۔ دونوں بہت ممنون ہونے لگے۔ سامان میں کچھ تاخیر ہونے لگی تو محترمہ نے تعارف کرنا چاہا۔۔۔آپ کہاں سے ہیں؟؟میں نے جواباً پاکستان کہا تو وہ جذبات میں بولیں میری ماں کا تعلق بھی سندھ سے تھا۔ مجھے سمجھنے میں دقت ہوئی تو پوچھا آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟ تو جواب دیا ہندوستان سے۔۔۔ مجھے مزید حیرت ہوئی۔ وہ مسکرا کر بولیں۔۔۔دراصل میری والدہ سندھ سے تھیں اور والد ہندوستان سے۔ میری والدہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہت پہلے برطانیہ آگئی تھیں تو یہاں پھر شادی میرے والد سے ہوئی جو ہندوستانی تھے۔ پھر میری شادی بھی اِن سے ہوئی جو ہندوستانی ہیں۔انہوں نے ہمراہ موجود ادھیڑ عمر شخص کی طرف اشارہ کیا۔
میں ایک گائناکالوجسٹ ہوں اور یہ بھی ایک ڈاکٹر ہیں۔ ہم دونوں نے ایک طویل عرصہ یہاں پریکٹس کی ہے۔ پھر انہوں نے میرے متعلق استفسار کیا تو میں نے مختصراً اپنا تعارف کروا دیا اور آنے کا سبب بیان کیا۔
بات چیت چل ہی رہی تھی کہ ان کا بیگ مشین پر گھومتا ہوا قریب آنے لگا تو انہوں اشارے سے مجھے بیگ کی نشاندہی کی۔ میں نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور بیگ آتے ہی اٹھا کر ٹرالی پر رکھوا دیا اور اجازت چاہی۔
محترمہ نے جذبہ تشکر میں شکریے کے لئے ایک دم میری جانب ہاتھ بڑھا دیا تو میں ایک دم سمجھ نہ سکا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ شش و پنج میں تھا کہ کیا جائے کہ اس سے پہلے کبھی ایسی صورتحال کا سامنا نہ ہوا تھا۔ سو اس کے سوا کچھ نہ سوجھا کہ بوڑھی خاتون ہیں تو شاید بیٹا سمجھ کے ہی ہاتھ ملا رہی ہوں چنانچہ ایک جھٹکے سے ہاتھ ملا کر واپس کھینچ لیا۔ وہ شاید صورتحال کو بھانپ گئیں تو فوری ان کے شوہر نے آگے بڑھ کر باقاعدہ گرمجوشی سے ہاتھ ملایا اور شکریہ ادا کیا۔
وہ لوگ تو شکریہ ادا کر کے چلے گئے مگر میں اسی سوچ میں اٹک گیا کہ ایسے لوگوں کو کس تعارف سے یاد کیا جائے۔ جن میں کے کسی نے کسی زمانے میں کسی سبب سے ملک چھوڑا اور پھر اپنی شناخت، اپنا مذہب اپنی روایات سب تج دیا۔ وہ خاتون جو کبھی اہل خانہ کے ہمراہ یہاں آئی تھیں اور پھر کسی ہندو سے بیاہ کر لیا اور یوں پوری کی پوری نسل کو گم کردیا۔
ہم میں کے وہ لوگ جو بہت بڑے بڑے خواب سجائے بڑے بڑے ملکوں میں جانا اور قیام پذیر ہونا پسند کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ کئی کئی نسلوں کے دین اور ایمان کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ کل اللہ کے حضور اگر کسی نے دعوی کر دیا کہ پوچھئے میرے والدین سے کہ یہ اپنا ملک، اپنی ثقافت اور اپنا دین چھوڑ کر کیوں یہاں آبسے تو شاید یہ ایک ایسا مقدمہ ہو جس میں سرخرو ہونا مشکل ہوجائے۔ ایک جواب ہی شاید عنداللہ قابل عذر ہوسکے کہ ہم اس تنگ اور گھٹن زدہ معاشرے کو اسلام کی وسعت سے روشناس کروانے کی غرض سے دعوت الی الاسلام کی غرض سے آئے ، اسی کی تکمیل میں زندہ رہے ، پھر اپنے بعد بھی اپنے بچوں کو یہی تلقین کی اور اسی پر تیرے حضور پیش ہو گئے۔ پھر اگر کوئی بھٹک جائے اور کل کو اپنے رب سے شکایت بھی کرے تو ایسے میں وہ عیسی علیہ السلام کے جواب کو اپنا جواب بنا سکیں کہ جو وہ عدالت خداوندی میں اپنے متعلق دے سکیں۔ ما قلت لھم الا امرتنی بہ ان اعبدواللہ ربی وربکم وکنت علیھم شہیدا ما دمت فیہم، فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم۔ وانت علی کل شئ شہید۔
ان سب توجیہات کے ساتھ سوال یہ ہے کہ کیا پہلے ہی ہم اپنے خطوں میں کم فتنوں میں گھرے ہیں کہ اس پر مستزاد ہم یہاں پردیس میں خود کو اور اپنی نسل کو ابتلا میں ڈالنے چلے آئے ہیں۔ ایک ایسا خطہ کہ جہاں نہ اذان کی آواز اپنے رب کی جانب پکارتی ہو اور نہ ہی کوئی شعائر اپنی انفرادیت کا پتہ دیتے ہوں وہاں اپنے دین پر قائم رہنا بھی ایک چیلنج بن جاتا ہے جسے بمشکل ایک یا دو نسلیں برقرار رکھ پاتی ہیں۔
(جاری ہے)