شہزادہ محمد بن سلمان کی موجودگی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے شام کے صدر احمد الشرع کی ملاقات ہوئی ،اس ملاقات کے کیا مثبت اور منفی نتائج سامنے آتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اس کا ایک خطرناک پہلو قابل غور ہے اور وہ ٹرمپ کی طرف سے شام سے اقتصادی پابندیاں ہٹانے کے بدلے، اسرائیل کو تسلیم کرنے اور ابراہم اکارڈ معاہدے کو ماننے کی بات ہے یعنی روٹی کا لالچ دے کر غیرت، حمیت، اور شہداء کے خون کا سودا مانگا گیا!
واضح رہے کہ ابراہم اکارڈ (Abraham Accords) مشرقِ وسطیٰ میں ایک تاریخی سفارتی معاہدہ ہے جس کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش نے اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرتے ہوئے اُس سے سفارتی، تجارتی اور دفاعی تعلقات قائم کیے۔
یہ معاہدہ 13 اگست 2020ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو، اور اماراتی ولی عہد محمد بن زاید کی موجودگی ہوا۔
اس کے بعد 15 ستمبر 2020ء کو وائٹ ہاؤس میں اس کا باضابطہ دستخطی اجلاس ہوا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شام صرف ایک ملک ہے؟
نہیں!
یہ وہ سرزمین ہے جہاں حرہ کی ماں نے صبر کا پہاڑ دکھایا، جہاں دمشق کی گلیاں تاریخِ اسلامی کی روشن شمعیں ہیں، اور جہاں بچوں کی لاشوں پر بھی "لا إله إلا الله” کی صدائیں بلند ہوتی رہیں۔
آج اسی شام سے کہا جا رہا ہے:
"اپنی شناخت بیچ دو، اپنے قبلۂ اول کے دشمن کو گلے لگا لو، ہم تمہیں پابندیاں اٹھا کر روٹی اور دوا دیں گے!”
یہ وہی امریکہ ہے جس نے شام کو کھنڈر بنایا، جس کے ہاتھ لاکھوں شامیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، اور آج وہی شام کو امن کا سبق دے رہا ہے؟
کیا قومیں یوں اپنے قاتلوں سے مصافحہ کرتی ہیں؟
کیا وہ مجاہدین جو گیس کے حملوں میں شہید ہوئے، ان کے وارث اسرائیل سے رشتہ جوڑنے پر راضی ہوں گے؟
ہمارا ماننا ہے کہ ابراہم اکارڈ معاہدہ ایک دھوکہ ہے ۔
یہ "امن” کے لبادے میں "قبضہ”، "تسلیم” کے نام پر "تابعداری”، اور "تعاون” کے نام پر "غلامی” ہے۔ جو قومیں آج اسرائیل کو گلے لگا رہی ہیں، کل وہ اپنا ایمان، تہذیب، اور تاریخ سب کچھ ہار بیٹھیں گی۔
اے شام کے حکمرانو!
اگر تم نے غیرت کا دامن تھاما تو تاریخ تمہیں افتخار سے یاد رکھے گی۔ لیکن اگر تم نے قبلۂ اول کا سودا کیا، تو تم بھی ان بدبختوں کی صف میں شامل ہو جاؤ گے جنہیں تاریخ "غداروں” کے نام سے یاد رکھتی ہے۔