پاکستان میں نوجوان ہونا ایک مسلسل امتحان ہے، اور اگر کوئی نوجوان شعور کے ساتھ جینے کی کوشش کرے، سوال کرے، یا رائے دینے کی جسارت کرے—تو یہ امتحان سزا میں بدل جاتا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے، سماجی نظام، اور ریاستی ڈھانچے ایک ایسے سانچے میں نوجوان کو ڈھالنا چاہتے ہیں جہاں صرف اطاعت، خاموشی اور تسلیم ہی قابلِ قبول رویے ہوں۔
تعلیمی ادارے وہ جگہ ہونے چاہئیں جہاں سوال کی حوصلہ افزائی کی جائے، لیکن یہاں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایک طالبعلم جب نصاب کی فرسودگی پر سوال اٹھاتا ہے، جب وہ یہ پوچھتا ہے کہ ہمیں تنقیدی سوچ کیوں نہیں سکھائی جاتی، یا وہ کسی فیس کے اضافے یا طلبہ یونین کی بحالی پر بات کرتا ہے، تو ادارہ فوراً اس کی آواز دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ کئی جامعات میں طلبہ کو محض سوال کرنے پر وارننگ لیٹرز، ڈسپلنری کمیٹیوں، حتیٰ کہ اخراج تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ رویہ صرف ادارہ جاتی حد تک محدود نہیں۔ ریاستی بیانیہ بھی نوجوان کو محض ایک فرمانبردار فرد کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے مطابق نوجوان کو صرف پڑھائی کرنی ہے، نوکری تلاش کرنی ہے، اور سیاسی، سماجی یا مذہبی معاملات پر کوئی بات نہیں کرنی۔ سوال کرنے والا نوجوان ریاست کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے، چاہے وہ بلوچ لاپتہ افراد پر سوال کرے یا تعلیم کے ناقص معیار پر۔ ایسے طلبہ کو اکثر ’غدار‘، ’ایجنڈا پرست‘ یا ’انتشار پسند‘ قرار دے کر خاموش کروا دیا جاتا ہے۔
پاکستان کی کئی جامعات میں اس کی زندہ مثالیں ملتی ہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں فیسوں کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والے طلبہ پر ایف آئی آر درج ہوئی۔ پنجاب یونیورسٹی میں سلیبس ریفارم کی بات کرنے والے طلبہ کو سسپنڈ کر دیا گیا۔ اور ایسے درجنوں کیسز موجود ہیں جہاں صرف تنقیدی گفتگو کو ’غیراخلاقی‘ یا ’نظمِ ادارہ کے خلاف‘ قرار دے کر دبا دیا گیا۔
یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر نظام سوال سے اتنا ڈرتا کیوں ہے؟ وجہ واضح ہے: ہمارے تعلیمی اور ریاستی ڈھانچوں کے پاس ان سوالات کا کوئی مدلل جواب نہیں۔ وہ سوال کو threat سمجھتے ہیں کیونکہ سوال جوابدہی مانگتا ہے، اور جوابدہی ان اداروں کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ ہمارے ہاں سوچنے والے فرد کو خطرناک سمجھا جاتا ہے کیونکہ سوچنے والا کبھی آسانی سے قابو میں نہیں آتا۔
اس صورت حال کا حل کسی انقلاب سے نہیں بلکہ فکری اصلاحات سے ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں مکالمے اور آزاد اظہارِ رائے کی فضا پیدا کرنی ہوگی۔ طلبہ یونین کی بحالی ایک اہم قدم ہو سکتا ہے تاکہ نوجوانوں کو ایک باضابطہ پلیٹ فارم ملے جہاں وہ اجتماعی مسائل پر بات کر سکیں۔ ساتھ ہی اساتذہ اور منتظمین کو یہ سیکھنا ہوگا کہ تنقید برداشت کرنا ادارے کی مضبوطی کی علامت ہے، کمزوری کی نہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ سوال کسی جرم کا نام نہیں، بلکہ شعور کا پہلا قدم ہے۔ نوجوان جب سوال کرتا ہے، تو وہ صرف اپنے لیے نہیں، پورے معاشرے کے لیے روشنی مانگتا ہے۔ ایسے نوجوان کو دبانا صرف فرد کا نہیں، قوم کے مستقبل کا قتل ہے۔
اگر ہم ایک زندہ اور باشعور قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں نوجوانوں کے سوالوں سے ڈرنا نہیں، بلکہ ان کا خیر مقدم کرنا ہوگا۔