بدھ, نومبر 13, 2024

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!

اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ روزِ اول سے باغیان خدا، قاتلان انبیاء اور منکرین مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے مسلمانان عالم کو مختلف خطرات و چیلنجز کا سامنا رہا ہے
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تاامروز چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی!

اس لیے "انتم على ثغر دائم” (تمہارا سامنا ہمیشہ مشکل سے ہوتا رہے گا) فرمایا گیا۔ لیکن اس متغیر و انقلاب پذیر (critical transformative phase) دور میں جن مشکلات و خطرات کا سامنا مسلمانوں کو درپیش ہے وہ تمام تر خطرات و مشکلات سے قوی تر اور پرفتن ہیں۔ غضب الہی کے سکہ بند مستحق، متکبر و سفاح، حیلہ و چال باز، عالمی طاقتوں کے ایجنٹ اور مسموح الفطرت یہود جہاں ایک طرف عسکری جنگ کے ذریعہ مسلمانوں کی نسل کشی، آبرو کی پامالی اور انکے مقدسات کو نقشہِ عالم سے مٹانے کے لئے سر گرم‌ عمل‌ ہیں۔ وہیں دوسری طرف پورا عالم کفر نظریاتی جنگ ( الغزوه الفكري) کے ذریعہ مسلمانوں کو شعوری و روحانی طور پر مردہ کرکے اپنے سانچے میں ڈھالنے کو اپنا اصلی ہدف سمجھتے ہیں۔
اس مقصد کے حصول کے لیے آج تمام عدوِّ اسلام فرانس کے بادشاہ، ساتویں صلیبی جنگ کے علمبردار، یورپ میں نظریاتی جنگ کے بانی "لوئیس سینٹ” کے بیان کیے گئے اصولوں کو اپنے لیے زادراہ سمجھتے ہیں۔ جب "لوئیس سینٹ” جہد مسلسل اور سعی پیہم کے باوجود مسلمانوں کی کوہ استقلالی کے سامنے ٹک نہ سکا تو بالآخر یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ: ” مسلمانوں پر قابو پانے کے لیے عسکری میدان چھوڑ کر ان پر فکری یلغار کی ضرورت ہے اور ان کے خلاف فکری محاذ پر لڑنے کے لیے جدید علمی ہتھیار کی تیاری انتہائی ضروری ہے”۔
عصرِ حاضر کے تمام فتنے اسی نظریاتی جنگ (ideological war) کا نتیجہ ہیں۔ چاہے وہ الحاد (atheism)، غامدیت، مرزائیت، تحریک تجدید (modernism)، انسانیت پرستی (Humanism)، قوم پرستی (nationalism)، سامراجیت (colonialism) ہو یا پھر لادینیت (secularism)۔۔۔

سوال یہ ہے کیا ہم علمی پختگی اور نظریاتی جنگ کے جدید ہتھیار لیے فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں؟

اس وقت عالم اسلام میں اسلامی قوتوں کو دبانے کی تین طرح کوششیں ہو رہی ہیں:

١): بے اثر بنانا (Neutralisation):
میڈیا پر یہودی سرمایہ داروں کی اجارہ داری 90 فیصد تک ہے انہوں نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ تمام خبر رسا ایجنسیاں، رائٹرز ایسوسی ایٹڈ پریس، یونائیٹڈ پریس، انٹرنیشنل اور فرانسیسی ایجنسیاں یہود ہی کے پاس رہے گی۔ ناپاک صلیبیوں اور غلیظ صہیونیوں نے تین باتوں پر اتفاق کر رکھا ہے: (١): عیسائی و یہودی اتحاد پر زد نہیں پڑنے دی جاۓ گی (٢): سرمایہ دارانہ ( capitalism ) نظام کی وکالت کی جائیں گی (٣): امریکی سیاست کی ہمیشہ خوب ترجمانی ہوتی رہے گی۔
اس وقت تمام میڈیا پلیٹ فارمز پر اسلام دشمن عناصر اسلام کے خلاف ایک لمحے کے ضیاع کو نقصان عظیم سمجھتے ہیں۔ فلم انڈسٹری ملین روپے اسلامی اذہان کو خراب کرنے پر لگا رہی ہے۔ صرف پاکستان میں 30 لاکھ ملین ڈالرز الحاد کو پھیلانے کے لیے مختص کیے گئے ہیں لیکن افسوس! ان فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے رجال کار کی تعداد نقار خانے میں طوطے کی آواز کے مانند ہے۔

مصروف طائرانِ چمن ہیں کلیل میں
صیاد‌ تانت باندھ رہا ہے غلیل میں!

2): مسلمانوں کی قوت کو محدود و کمزور کرنا ( containment ): جب شدید معاشی اور تجارتی مشکلات سے نکلنے کے بعد ہم ذرا خوشحالی اور کامیابی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں تو ہمیں غیر ملکی طاقتوں کی طرف سے معاشی اور تجارتی پابندیوں ( sanctions ) ورلڈ بینک، آئی ایم ایف کی اقتصادی و امدادی ادائیگیوں اور ایف ٹی ایف کی طرف سے لگائی ہوئی پابندیوں کا ہمیشہ خوف دامن گیر ہوتا ہے۔ ان اداروں کی ظالمانہ پالیسیوں سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر کامیابی و خوشحالی کی امید خیال است و محال است جنون کا مصداق ہے۔

3): مسلمانوں کو دھکیل کر کنارے کرنا یعنی بائیکاٹ کے ذریعہ ان کا ناطقہ بند کرنا ( Marginalisation):
اسکی زندہ مثال فاتح ملک افغانستان ہے۔ انسانی حقوق کے نام نہاد دعویدار (اقوام متحدہ) جسے رکنیت دینے سے خوف زدہ ہے اور دوسرے ممالک کو تعلقات سے بائیکاٹ پر زور دے رہے ہیں۔ اسی طرح فلسطین کے نہتے مسلمان ہیں جسے آج طاقتور اسلامی ممالک مغربی آقاؤں کی وجہ سے اقوام متحدہ کے خون خوار بھیڑے کے منہ سے چھڑانے سے قاصر ہیں۔

اے مخاطب!
اس ناگفتہ بہ دور کے دلخراش واقعات سامنے آنے کے بعد اب اور کونسی ایسی مصیبت ہوگی جو ہماری آنکھیں کھولنے، مغربیت پرستی، سطحیت پسندی، وقتی جذباتیت اور بے عملی کو چھوڑنے ٹھوس کام اور بھرپور جدوجہد پر آمادہ کرے گی۔ اگر ہم غلامی سے نکل کر آزادی، کامیابی و خود مختاری کی راہ پر گامزن ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر فتنے کا تعاقب، دشمن کے عزائم کا دور اندیشی سے جائزہ اور امنڈتے ہوئے نت نئے چیلنجز کو دل سے قبول کر کے علمی اور وسائلی میدان میں ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ منافق امریکہ کے بنائے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور پروگرامز کو چھوڑ کر اپنے پروگرامز کی طرف آنا ہوگا جیسے کہ روس اس وقت اپنے کئی پروگرامز بنا چکا ہے۔ اسی طرح تعلیمی معاشی اور دفاعی میدانوں میں خود کفیل ہوئے بغیر، محبت و ہمدردی، اتحاد و ہم آہنگی کے دائرے میں آئے بغیر، تفریق وباہمی جھگڑوں (violence and rift) کا خاتمہ کیے بغیر اور شریعت کے رہنما اصولوں پر عمل کیے بغیر ہم اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے لہذا ہمیں غفلت و لاپرواہی سے نکل کر تحقیقی بنیادوں( academic based) پر کام کرنے کی اشد ضرورت ھے ورنہ دشمن کے عزائم و منصوبے ہمیں تنکے کی طرح بہا لے جائیں گے۔

بقول علامہ اقبال مرحوم: ہے جرم‌ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات!

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں