پیر, اکتوبر 7, 2024

پاکستان کی سیاسی تاریخ (1947-2024)

1. آزادی اور ابتدائی سال (1947-1958)

14 اگست 1947 کو پاکستان نے برطانوی راج سے آزادی حاصل کی، برطانوی ہندوستان کی تقسیم کے بعد مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست بن گئی۔ پاکستان ابتدائی طور پر مشرقی اور مغربی پاکستان پر مشتمل تھا (ہندوستان نے الگ کیا) اور اس کی قیادت ملک کے بانی اور پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح نے کی۔ تاہم، ابتدائی برسوں میں بڑے پیمانے پر آبادی کی نقل مکانی، معاشی عدم استحکام، اور بھارت کے ساتھ کشمیر کے تنازع جیسے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔

1948: محمد علی جناح کا انتقال ہوا، اور پاکستان کو قیادت کے بحران کا سامنا کرنا پڑا۔

1951: وزیراعظم لیاقت علی خان کو قتل کر دیا گیا۔

1956: پاکستان نے اپنا پہلا آئین منظور کیا، اسلامی جمہوریہ بن گیا۔

1958: جنرل ایوب خان نے مارشل لاء کا اعلان کیا، سیاست میں پاکستان کی طویل فوجی مداخلت کا آغاز۔

2. ایوب خان اور فوجی دور (1958-1971)

ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد بطور صدر پاکستان پر حکومت کی۔ ان کے دور میں اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ سیاسی دباؤ اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے علاقائی تناؤ کا بھی نشان تھا۔

1965: پاکستان نے کشمیر پر بھارت کے ساتھ اپنی دوسری جنگ لڑی، جس کے نتیجے میں تعطل پیدا ہوا۔

1969: ایوب خان نے احتجاج کے دوران استعفیٰ دے کر اقتدار جنرل یحییٰ خان کو سونپ دیا۔

1970: پہلے عام انتخابات ہوئے، اور شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کی، لیکن مشرقی پاکستان کی خودمختاری کا مطالبہ سیاسی تعطل کا باعث بنا۔

3. مشرقی پاکستان اور بھٹو دور کی علیحدگی (1971-1977)

مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان کشیدگی بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ پر منتج ہوئی۔ مشرقی پاکستان کی جانب سے ہندوستان کی مداخلت دسمبر 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کا باعث بنی، جو پاکستان کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔

1971: جنرل یحییٰ خان نے استعفیٰ دے دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو صدر اور بعد میں وزیر اعظم دونوں کے کرداروں کو لے کر نئے لیڈر بن گئے۔

1973: پاکستان نے ایک نیا آئین منظور کیا، پارلیمانی نظام قائم کیا۔

بھٹو کی حکومت نے سوشلسٹ اصلاحات کیں اور اہم صنعتوں کو قومیا لیا لیکن معاشی مسائل اور سیاسی جبر کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

4. ضیاء الحق کا فوجی دور (1977-1988)

1977 میں جنرل ضیاء الحق نے فوجی بغاوت کے ذریعے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ بھٹو پر 1979 میں مقدمہ چلایا گیا اور اسے پھانسی دے دی گئی، جس سے بین الاقوامی سطح پر غم و غصہ پیدا ہوا۔ ضیاء نے اسلامائزیشن کی پیروی کی، شرعی قوانین متعارف کروائے، اور پاکستان کے سماجی تانے بانے کو تبدیل کیا۔

1979: سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا، اور پاکستان نے امریکی تعاون سے افغان مجاہدین جنگجوؤں کی حمایت میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اس سے معاشی امداد تو ملی لیکن عسکریت پسندی میں بھی اضافہ ہوا۔

1988: ضیا ایک طیارہ حادثے میں مر گیا، جس کے نتیجے میں ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔

5. جمہوری وقفہ اور سیاسی عدم استحکام (1988-1999)

ضیاء کی موت کے بعد، پاکستان سویلین حکمرانی میں واپس آیا، لیکن اس عرصے میں بے نظیر بھٹو (ذوالفقار بھٹو کی بیٹی) اور نواز شریف کے درمیان شدید دشمنی تھی۔ ان کی حکومتیں تبدیل ہوئیں، ہر ایک کو بدعنوانی اور بدانتظامی کے الزامات کا سامنا ہے۔

1988-1990: بے نظیر بھٹو مسلم اکثریتی ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔

1990-1993: پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل-این) کے نواز شریف وزیراعظم بن گئے، اقتصادی لبرلائزیشن پر توجہ مرکوز کی۔

1993-1996: بھٹو اقتدار میں واپس آئے لیکن کرپشن کے الزامات کی وجہ سے ان کی حکومت گر گئی۔

1997-1999: نواز شریف نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی لیکن خارجہ اور ملکی پالیسیوں پر فوج کے ساتھ تصادم ہوا۔

6. پرویز مشرف کی فوجی بغاوت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ (1999-2008)

1999 میں جنرل پرویز مشرف نے ایک بے خونی بغاوت کے ذریعے نواز شریف کا تختہ الٹ دیا۔ انہوں نے شروع میں جمہوریت کی جلد واپسی کا وعدہ کیا تھا لیکن ایک فوجی آمر کے طور پر حکومت ختم کر دی۔

2001: 9/11 کے حملوں کے بعد، پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اہم اتحادی بن گیا، جس نے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف جنگ میں مدد کی۔

2007: مشرف کو بڑھتی ہوئی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، اور بے نظیر بھٹو پاکستان واپس آگئیں۔ دسمبر 2007 میں اسے قتل کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بدامنی پھیل گئی۔

2008: دباؤ میں مشرف نے استعفیٰ دے دیا، اور جمہوری انتخابات ہوئے۔

7. جمہوری دور اور بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی (2008-2018)

بے نظیر بھٹو کی بیوہ آصف علی زرداری کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) برسراقتدار آئی۔ اگلی دہائی میں سویلین حکمرانی کی واپسی دیکھی گئی، لیکن حکومت نے بدعنوانی، اقتصادی چیلنجوں اور اسلامی عسکریت پسندی کے خلاف جاری لڑائی کے ساتھ جدوجہد کی۔

2010: آئین میں 18ویں ترمیم نے پارلیمانی نظام کا بیشتر حصہ بحال کر دیا اور صدارتی اختیارات کو کم کر دیا۔

2011: اسامہ بن لادن پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ایک امریکی آپریشن میں مارا گیا، جس سے امریکہ کے ساتھ تناؤ پیدا ہو گیا۔

2013: نواز شریف کی مسلم لیگ ن نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی، اور وہ دوبارہ وزیر اعظم بن گئے۔ ان کا دور اقتصادی ترقی، بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں، اور ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے پر مرکوز تھا۔

2016: پاناما پیپرز اسکینڈل نے شریف کو کرپشن میں ملوث کیا، جس کے نتیجے میں 2017 میں سپریم کورٹ نے انہیں نااہل قرار دیا۔

8. عمران خان اور پی ٹی آئی کا دور (2018-2022)

2018 کے عام انتخابات میں عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) جیت کر ابھری، اور وہ وزیراعظم بن گئے۔ خان نے بدعنوانی سے نمٹنے، فلاحی اصلاحات نافذ کرنے اور "نیا پاکستان” بنانے کا وعدہ کیا۔

ان کی حکومت نے چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور افغانستان میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں ثالثی سمیت خارجہ پالیسی میں پیش رفت کی۔

مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ معاشی چیلنجز برقرار رہے۔

2022 میں، خان کی حکومت کو عدم اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے ان کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اس نے سیاسی عدم استحکام کے ایک اور باب کو نشان زد کیا، کیونکہ خان اور ان کے حامیوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی برطرفی غیر ملکی حمایت یافتہ سازش تھی۔

9. سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام (2022-2024)

عمران خان کے بعد، پاکستان کو مسلسل سیاسی بحران، معاشی مشکلات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کا سامنا رہا۔ بدعنوانی، سول ملٹری تناؤ اور علاقائی عدم استحکام اہم مسائل رہے۔

2023: پاکستان میں سیاسی پولرائزیشن کے درمیان عام انتخابات ہوئے، نئے سیاسی اتحاد اور فوجی اثر و رسوخ نے اہم کردار ادا کیا۔

معاشی بحران: 2024 تک، پاکستان شدید معاشی بحران، بڑھتے ہوئے قرضوں اور مہنگائی سے دوچار رہا۔ آئی ایم ایف اور سعودی عرب اور چین جیسے دوست ممالک کے ساتھ مذاکرات مالی استحکام کے لیے اہم بن گئے۔

سلامتی کے خدشات: پاکستان کو انتہا پسند گروپوں کی طرف سے مسلسل خطرات کا سامنا ہے، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دوبارہ سر اٹھانے سے، جس نے ریاست کی داخلی سلامتی کو برقرار رکھنے کی صلاحیت کو چیلنج کیا۔

نتیجہ (2024)

2024 تک، پاکستان جنوبی ایشیا میں ایک اہم کھلاڑی کی حیثیت رکھتا ہے، جو پڑوسی ممالک بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھتا ہے، چین کے ساتھ اپنے اتحاد کو سنبھالتا ہے، اور گھریلو چیلنجوں سے نمٹتا ہے۔ اس کے مستقبل کا انحصار سیاسی تقسیم پر قابو پانے، معیشت کو بحال کرنے اور سلامتی کے خطرات سے نمٹنے پر ہے۔

متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں