Home پہلا صفحہ سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی میں اساتذہ کیخلاف انتظامیہ کی کارروائیاں شروع

سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی میں اساتذہ کیخلاف انتظامیہ کی کارروائیاں شروع

کراچی: سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے اساتذہ کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے اور دھمکیاں دینے  کیخلاف وزیر اعلی سندھ کو خط لکھ دیا گیا ۔

تاریخی ادارے سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے سینیٹ اراکین نے اتنظامیہ کی طرف سے اساتذہ کیخلاف جاری انتقامی کارروائیاں روکنے اور دھمکیاں دینے کیخلاف ایس ایم آئی یو سینیٹ کے چیئرمین اور وزیر اعلی سندھ کو خط لکھا دیا ہے ۔

سینیٹ اراکین پروفیسر ڈاکٹر محمد ملوک رند ، اسسٹنٹ پروفیسر محمد امین ، اسسٹنٹ پروفیسر عبدالمجید ، اسسٹننٹ پروفیسر عرفان علی ، لیکچرر زبیر الدین شیخ ، لیکچرر عجب علی نے اپنے دستخط سے لکھے گئے خط میں یونیورسٹی میں ہونے والی انتقامی کارروائیوں، ناانصافیوں، نوکری سے نکالنے کی دھمکیوں سے پردہ اٹھایا ہے۔

خط کے مطابق ممبر سینیٹ اور سینڈیکیٹ آصف حسین سموں نے 10 جنوری 2024 کو تین اساتذہ کو ان کے دفتر میں جا کر نوکری سے نکالنے کی دھمکیاں دیں جس کے خلاف تینوں اساتذہ نے وائس چانسلر کو تحریری طور پر شکایت کی مگر ان کی شکایت کو وائس چانسلر آفیس نے وصول کرنے سے انکار کر دیا ۔

بدقسمتی سے اس واقعے کو ایک ماہ کا وقت گذر چکا ہے مگر نہ تو وائس چانسلر متاثرہ اساتذہ سے کی فریاد سن رہے ہیں بلکہ اس واقعے پر کوئی بھی ایکشن لینے سے قاصر ہیں۔ بلکہ الٹا انتظامیہ کی جانب سے مسلسل انتقام کا نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ۔

ادارے میں جو بھی اساتذہ نا انصافیوں کیخلاف آواز اٹھاتے ہیں ان کو ایکسپلینیشن کالز کے ذریعے ذہنی طور پر پریشان کیا جا رہا ہے ۔ جب کہ انتظامی اور اکیڈمک اسائنمینٹس کا مشکل ٹاسک دیکر انتقامی کارروائیوں کا جواز پیدا کیا جا رہا ہے ۔

خط کے متن کے مطابق اساتذہ کو ڈائریکٹر ایچ آر کی جانب سے کئی ماہ پرانی اٹینڈنس کو جواز بنا کر ایکسپلینیشن لیٹرز دیے جا رہے ہیں جب کہ اس کے علاوہ معزز اساتذہ جن میں پروفیسر ڈاکٹر افتاب شیخ اور ڈاکٹر عمران علی کو چیئرمین کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے ۔

عرفان علی اور زبیر الدین شیخ کو ڈپارٹمینٹ کورآرڈینیٹرز کے عہدوں سے جبری طور پر سزا دیکر ہٹا دیا گیا ہے۔ جب کہ خواتین فیکلٹی ممبران کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے دفتر خالی کریں ۔ بانی پاکستان قائد اعظم کی مادرعلمی میں ایسی صورتحال قابل تشویش اورانتظامیہ کیلئے شرمناک ہے۔

اس کے علاوہ آواز آٹھانے والے اساتذہ کے مالی معاوضے بند کر دیئے گئے ہیں۔ متعدد اساتذہ کے فیملی میمبرز اور والدین کی میڈیکل سہولیات بھی روک دی گئیں ہیں۔

ممبرز کا مزید کہنا ہے کہ انتظامیہ کے رویے کی وجہ سے یونیورسٹی میں ایک خوف کا ماحول ہے جسکی وجہ سے تعلیمی اور دیگر امور سخت متاثر ہیں۔ اساتذہ اور ملازمین سمیت طالبعلموں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔

خط میں وزیراعلی سندھ، سکریٹری جامعات، سندھ اور وفاقی ہائیر ایجوکیشن، سینیٹ و سینڈیکیٹ اراکین اور دیگر متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بانی پاکستان کی مادر علمی اور تاریخی ادارے کو تباہی سے بچائیں اور ادارے میں ہونے والی بےظابطگیوں، ناانصافیوں، انتقامی کارروائیوں کو روکنے کیلئے ایکشن لیں اور ایک اعلی سطحی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی جائے ۔

Exit mobile version