آج اردو کے نامور ادیب، نقاد، محقق، افسانہ نگار، صحافی اور ماہر لسانیات علامہ نیاز فتح پوری کا یومِ وفات ہے۔ ایک ایسی شخصیت جنہوں نے برصغیر کی علمی و ادبی دنیا میں اپنی انفرادی سوچ اور فکری جرات کے باعث منفرد مقام حاصل کیا۔ ان کا مطالعہ صرف ایک فرد نہیں بلکہ ایک متحرک دور، ایک علمی تحریک اور ذہنی بیداری کا مطالعہ ہے۔
نیاز محمد خان المعروف نیاز فتح پوری 28 دسمبر 1884ء کو فتح پور، سہوہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ اسلامیہ فتح پور، مدرسہ عالیہ رام پور اور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ تدریس، صحافت، تحقیق، شاعری اور ادب کے میدانوں میں سرگرم ہو گئے۔
1922ء میں انہوں نے ماہنامہ ’’نگار‘‘ جاری کیا، جو اردو صحافت میں روشن خیالی اور فکر انگیزی کا استعارہ بن گیا۔ نگار نے ان کے نظریاتی اور ادبی خیالات کو عوام تک پہنچانے کا پلیٹ فارم فراہم کیا۔ یہی وہ جریدہ تھا جہاں سے اردو میں جدید تنقیدی شعور اور فکری تحریک نے جنم لیا۔
نیاز فتح پوری نے تنقید، افسانہ، مذہب، فلسفہ، تاریخ، ترجمہ، اور لسانیات جیسے شعبوں میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ ان کی تحریریں نہ صرف فکری وسعت کی حامل ہیں بلکہ اردو نثر کو ادبی لطافت بھی عطا کرتی ہیں۔
نیاز فتح پوری کی علمی اور ادبی کاوشوں کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ ان کی چند اہم کتب درج ذیل ہیں:
– من و یزداں (2 جلدیں)
– مالہ و ما علیہ
– مشکلاتِ غالب
– استفسارات
– انتقادیات (2 جلدیں)
– ترغیباتِ جنسی
– تاریخ الدولین
– توقیتِ تاریخِ اسلامی ہند
– چند گھنٹے حکماء کی روح کے ساتھ
– جذبات بھاشا
– نگارستان
– جمالستان
– نقاب اُٹھ جانے کے بعد
– حُسن کی عیّاریاں اور دوسرے افسانے
– مختاراتِ نیاز
– شہاب کی سرگزشت
– ایک شاعر کا انجام
– صحابیات
– عرضِ نغمہ (ٹیگور کی گیتا انجلی کا ترجمہ)
– مکتوباتِ نیاز (3 جلدیں)
– مذہب
– محمد بن قاسم سے بابر تک
– مذاہبِ عالم کا تقابلی مطالعہ
– شبنمستان کا قطرہ گوہرین
نیاز فتح پوری نے نہ صرف افسانہ نگاری میں اپنی انفرادیت منوائی بلکہ تراجم کے میدان میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ان کا ترجمہ کردہ ‘عرضِ نغمہ’، رابندر ناتھ ٹیگور کی ‘گیتا انجلی’ کا اردو قالب ہے، جو ترجمہ نگاری کی ایک بہترین مثال ہے۔
انہوں نے تین شادیاں کیں۔ 1962ء میں ہجرت کر کے پاکستان آ گئے اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ حکومت پاکستان نے انہیں ’’نشان سپاس‘‘ سے نوازا، جب کہ ہندوستان میں انہیں ’’پدمابھوشن‘‘ کا اعلیٰ ترین سول اعزاز دیا گیا۔
24 مئی 1966ء کو وہ کراچی میں انتقال کر گئے۔ پاپوش نگر کے قبرستان میں دفن کیے گئے۔ ان کی وفات اردو ادب کا ایک ناقابلِ تلافی نقصان تھی، لیکن ان کا فکری سرمایہ آج بھی نئی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
نیاز فتح پوری اردو ادب کی ایک ہمہ جہت شخصیت تھے—ایک ایسا قلمکار جس نے اردو نثر کو فکری وسعت، لسانی لطافت اور تنقیدی عمق عطا کیا۔ ان کا نام ہمیشہ ان لوگوں میں شامل رہے گا جنہوں نے اردو کو صرف زبان ہی نہیں بلکہ تہذیب، فلسفہ اور شعور کی زبان بنایا۔