بدھ, جون 25, 2025

رستمِ زماں گاما پہلوانؒ

23 مئی کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسے مردِ قلندر کی یاد دلاتا ہے، جو صرف ایک پہلوان نہیں بلکہ طاقت، عزم، استقامت اور غیر متزلزل حوصلے کا استعارہ تھا۔ گاما پہلوان، جنہیں دنیا رستمِ زماں کے لقب سے جانتی ہے، 1878ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام غلام محمد تھا۔ ایک معمولی درباری پہلوان کے بیٹے نے اپنی محنت، غیر معمولی قوت اور ناقابلِ تسخیر عزم سے وہ مقام حاصل کیا جو صدیوں میں کسی ایک کو نصیب ہوتا ہے۔

گاما پہلوان کا تعلق کشمیری بٹ خاندان سے تھا۔ ان کے والد عزیز پہلوان خود بھی ایک نامور پہلوان تھے۔ ان کی وفات کے بعد، گاما کی جسمانی تربیت ان کے ماموں عیدا پہلوان نے سنبھالی۔ بچپن ہی سے گاما نے طاقت کی علامت بننے کے آثار دکھانے شروع کر دیے تھے۔ ان کی پہلوانی کی سرپرستی پٹیالہ اور دتیہ کے مہاراجاؤں نے کی، جو ان کے لیے خصوصی خوراک، تربیت اور مالی وسائل مہیا کرتے رہے۔

گاما کی جسمانی تربیت آج بھی دنیا کے لیے حیرت کا باعث ہے۔ وہ روزانہ 5000 بیٹھکیں اور 3000 ڈنڈ لگاتے تھے۔ وہ 95 کلو وزنی لوہے کی ڈِسک اُٹھا کر ورزش کیا کرتے، جو آج بھی بھارت کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسپورٹس کے عجائب گھر میں موجود ہے۔ ان کی روزمرہ خوراک میں دو بکرے، تین سیر مکھن، چھ گیلن دودھ، تین ٹوکریاں پھل، اور بیس پاؤنڈ بادام کی سردائی شامل تھی۔ ان کے معمولات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر نظم و ضبط اور قوتِ ارادی کے مالک تھے۔

گاما پہلوان کا پہلا بڑا کارنامہ رستمِ پنجاب اور بعد ازاں رستمِ ہند کے خطابات حاصل کرنا تھا۔ تاہم ان کی شہرت کو بامِ عروج اس وقت ملا جب انہوں نے 1910ء میں یورپی چیمپئن اسٹینلے زبسکو کو شکست دے کر دنیا بھر میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ 17 ستمبر 1910ء کو ہونے والی اس تاریخی کشتی کے بعد انہیں رستمِ زماں اور جون بُل بیلٹ کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ بیلٹ صرف ان پہلوانوں کو دی جاتی ہے جو دنیا میں ناقابلِ شکست ہوں۔

انہوں نے اپنی زندگی میں 5000 کے قریب مقابلے لڑے اور کبھی شکست کا سامنا نہیں کیا۔ وہ عالمی سطح پر ہیوی ویٹ ورلڈ چیمپئن شپ کے فاتح بھی رہے اور انگلستان، سوئٹزرلینڈ، فرانس، اور امریکہ کے معروف پہلوانوں کو پے در پے شکست دی۔

گاما بمقابلہ رحیم بخش سلطانی والا:

یہ مقابلہ گاما کے کیریئر کا ایک اہم موڑ تھا۔ جب محض 19 سال کی عمر میں انہوں نے تقریباً 7 فٹ قد والے انڈین چیمپئن رحیم بخش سلطانی والا کو چیلنج کیا۔ توقع تھی کہ یہ دیو قامت پہلوان نوجوان گاما کو چند لمحوں میں زیر کر لے گا، لیکن کشتی برابر رہی، اور گاما نے اپنی جرات، چابک دستی اور غیرمعمولی برداشت سے سب کو حیران کر دیا۔

ناقابلِ یقین کارنامے:

گاما پہلوان نے 1902ء میں 22 سال کی عمر میں 1200 کلوگرام وزنی پتھر اٹھایا اور سینے تک لا کر کچھ قدم چلے۔ یہ پتھر آج بھی بھارت کے برودا میوزیم میں موجود ہے، اور اس پر واضح الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ ‘یہ پتھر 23 دسمبر 1902ء کو گاما پہلوان نے اٹھایا تھا’۔

قیامِ پاکستان کے بعد گاما پہلوان اپنے خاندان سمیت لاہور منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے اپنی بقیہ زندگی اپنے بھائی امام بخش اور بھتیجوں بھولو برادران کے ساتھ گزاری۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے 1959ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔

23 مئی 1960ء کو یہ عظیم پہلوان دنیا سے رخصت ہو گیا۔ وہ لاہور کے پیر مکی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ گاما پہلوان صرف ایک شخص کا نام نہیں، وہ ایک عہد، ایک تحریک، اور ایک مثال تھے۔ آج بھی پہلوانی کے حلقے ان کا نام احترام سے لیتے ہیں۔ پاکستان کی سابق خاتونِ اول کلثوم نواز ان کی نواسی تھیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گاما کی خاندانی روایت اب بھی موجود ہے۔

گاما پہلوان نہ صرف برصغیر کی کشتی کا عظیم ترین نام تھے بلکہ وہ پاکستان کے لیے فخر، اور نوجوان نسل کے لیے محنت، قربانی اور استقامت کی علامت ہیں۔ ان کا ناقابلِ شکست کیریئر اور مسلسل فٹنس آج کے کھلاڑیوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ 23 مئی صرف ان کی وفات کا دن نہیں، بلکہ ایک قومی ہیرو کو یاد کرنے کا دن ہے، جو آج بھی زندہ ہے، اپنے افسانوی کارناموں کی صورت میں۔

عثمان ایوب
عثمان ایوبhttps://alert.com.pk
عثمان ایوب ایک تجربہ کار صحافی، اینکر اور لیکچرر ہیں جن کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ وہ مختلف قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ منسلک رہ چکے ہیں جن میں تہذیب ٹی وی، الرٹ، زاجل نیوز (دبئی) اور دی پاکستان گزٹ شامل ہیں۔ عثمان ایوب نہ صرف رپورٹر، اینکر اور نیوز ایڈیٹر کے طور پر کام کر چکے ہیں بلکہ انھیں مذہبی پروگرامز کی میزبانی، بلاگز اور آرٹیکلز لکھنے میں بھی مہارت حاصل ہے۔ عثمان اس وقت یونیورسٹی آف لاہور کے اکیڈمی آف لینگوئجز اینڈ پروفیشنل ڈیولپمنٹ میں بطور لیکچرر عربی زبان کی تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان کی تعلیمی قابلیت میں اسلامک میڈیا اور دعوت میں بیچلرز، اور عربی زبان میں ڈپلومہ شامل ہے۔ صحافت کے ساتھ ساتھ عثمان ایوب نے سماجی اور رفاہی اداروں میں بطور میڈیا آرگنائزر اور والنٹیئر بھی اپنی خدمات سرانجام دی ہیں۔ ان کی مہارتوں میں رپورٹنگ، تحقیق، مواد نویسی، ویڈیو ایڈیٹنگ، ٹیم مینجمنٹ، اور کمیونیکیشن اسکلز شامل ہیں۔
متعلقہ خبریں

مقبول ترین

متعلقہ خبریں