گزشتہ کئی عشروں سے ملک میں امن وامان کی دن بدن بگڑتی ہوئی صورت حال اور جرائم میں بے پناہ اضافہ کے باعث رہائشی و کاروباری علاقوں اور سرکاری و نجی اداروں میں روائتی چوکیداری اور پہرہ داری کا نظام ختم ہو کر اب قصہ پارینہ بن چکا ہے ۔ محکمہ پولیس کی امن و امان کے قیام میں ناقص کارکردگی اور افرادی قوت میں کمی کے باعث معاشرہ میں انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنی قیمتی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے سیکیورٹی گارڈز کمپنیوں کے نیلی وردی پوش مسلح سیکیورٹی گارڈز کی خدمات حاصل کرنے کے رحجان میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ جس کے نتیجہ میں ملک کے طول وعرض میں قائم تمام رہائشی،کاروباری،سرکاری و نجی دفاتر، بڑے ہوٹلوں، بینکوں،میڈیا دفاتر،تعلیمی اداروں،اسپتالوں وغیرہ کی عمارتوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لئے داخلی دروازوں پر بڑی تعداد میں مسلح سیکیورٹی گارڈز تعینات کئے گئے ہیں ۔
لاکھوں سیکیورٹی گارڈز کا مظلوم اور بے زبان طبقہ کھلے آسمان تلے اور سخت موسم کی پرواہ کئے بغیر مسلسل گھنٹوں مستعد کھڑے رہ کر اور اپنی قیمتی جان خطرہ میں ڈال کر دیکھ بھال اور حفاظت کے لئے سپرد کئے گئے شہریوں کی قیمتی جان و مال اور اداروں کی املاک کی حفاظت کو ممکنہ حد تک یقینی بناتے ہیں۔ معاشرہ میں جرائم کے رحجان میں تیزی سے اضافہ کے باعث سیکیورٹی گارڈز کو ہر روز جرائم کے نت نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جس طرح پاک فوج شب و روز ملک کی سرحدوں کی نگہبانی اور حفاظت کے فرائض انجام دیتی ہے اور پولیس اہلکار ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں اسی طرح لاکھوں سیکیورٹی گارڈز بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شانہ بشانہ اندرون ملک شہریوں کی قیمتی جان و مال اور اداروں کی املاک کی حفاظت کے لئے مستعدی سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ان کے سروں پر ہمہ وقت جرائم پیشہ عناصر کی جانب سے مسلح حملوں کا خدشہ رہتا ہے اور موت کے خطرات منڈلا رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ دیکھا گیا گیا ہے کہ سفاک جرائم پیشہ افراد کی جانب سے کسی بھی مقام پر واردات کے دوران ان کا پہلا نشانہ وہاں تعینات پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز ہوتے ہیں ۔
ملک میں سیکیورٹی گارڈز کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیاں وزارت داخلہ، حکومت پاکستان کے 1988 کے ایک انتظامی حکم نامہ کے تحت کام کر رہی ہیں ۔قانون کے مطابق تمام سیکیورٹی گارڈز کمپنیوں کی کاروباری حیثیت کے پیش نظر ان کی سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP) میں رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں سیکیورٹی گارڈز کمپنیوں کو چاروں صوبوں کے محکمہ داخلہ اور چیف کمشنر اسلام آباد کے تحت رجسٹر کرانا بھی لازمی ہے ۔ بیشتر سیکیورٹی گارڈز فراہم کرنے والی کمپنیاں سابق فوجی افسران کی ملکیت بتائی جاتی ہیں۔وزارت داخلہ حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کردہ احکامات کے مطابق سیکیورٹی گارڈز کے لئے یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ مسلح افواج، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مشابہہ وردی نہیں پہنیں گے۔ سیکیورٹی گارڈز کو خدمات کے لحاظ سے مناسب تربیت اور ضروری آلات سے لیس ہونا بھی ضروری ہے۔ چاروں صوبوں کے محکمہ داخلہ کی جانب سے پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز کو حفاظتی امور کی انجام دہی کے لئے لائسنس یافتہ غیر ممنوعہ بور کے اسلحہ جات شاٹ گن،رائفل، ریوالور اور پستول رکھنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ لیکن وزارت داخلہ کے احکامات کی رو سے سیکیورٹی گارڈز کی جانب سے اپنے ڈیوٹی کے مقام یا عمارت سے باہر اسلحہ کی نمائش نہیں کی جاسکتی۔لیکن عملی طور پر صورت حال اس کے بالکل برعکس نظر آتی ہے۔قانون کے مطابق سیکیورٹی گارڈز کو اپنے دفاع میں گولی چلانے کا حق حاصل ہے۔ پاکستان شائد دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں تجارتی بینکوں کے داخلی دروازوں پر تعینات سیکیورٹی گارڈز میٹل ڈیٹیکٹر کے ذریعہ بینک آنے والے معزز گاہکوں کی جامہ تلاشی بھی لیتے ہیں جو ایک لحاظ سے بینک کے گاہکوں کی عزت نفس مجروح کرنے کے مترادف ہے اس نامناسب طریقہ کار کو فوری طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی (PACRA) کی جاری کردہ ایک جائزہ رپورٹ” سیکیورٹی انڈسٹری ان پاکستان” کے مطابق ملک میں سیکیورٹی گارڈز کی فراہمی ایک بکھری ہوئی صنعت ہے۔ جہاں تقریبا 6 بڑی سیکیورٹی کمپنیوں کی اجارہ داری ہے جبکہ 2 ہزار سیکیورٹی گارڈز کی نفری پر مشتمل تقریبا 400 سے زائد سیکیورٹی گارڈز کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ سیکیورٹی گارڈز کمپنیاں ملک کی معیشت میں 50 ارب روپے سالانہ کی صنعت کا درجہ رکھتی ہے۔ جہاں 2 لاکھ سے زائد پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ لیکن 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں سیکیورٹی گارڈز کی تعداد ڈھائی لاکھ تک پہنچ گئی ہے جن میں سے ڈیڑھ لاکھ سیکیورٹی گارڈز صوبہ سندھ میں تعینات ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت تقریبا 8,800 سے زائد چینی ماہرین ملک کے مختلف حصوں میں پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ جن کی حفاظت کے لئے تقریبا 16 ہزار کی تعداد میں خصوصی سیکیورٹی عملہ اور 2 ہزار سے زائد سیکیورٹی گارڈز تعینات کئے گئے ہیں۔ امید ہے کہ آئندہ چند برسوں میں پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت ہائی ویز، ریلویز اور پائپ لائنز پر مشتمل 3 ہزار کلو میٹر طویل روٹ کی تکمیل کے بعد پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز فراہم کرنے والی کمپنیوں کے لئے کاروبار کے مزید مواقع میسر آئیں گے۔
مختلف شعبوں کو سیکیورٹی گارڈز کی فراہمی کا کام دن بدن پھولتے پھولتے کاروبار کا درجہ اختیار کرگیا ہے۔ لہذاء سیکیورٹی گارڈز کمپنیوں کے کاروبار کے فروغ اور مفادات کے تحفظ کے لئے آل پاکستان سیکیوریٹی ایجنسیز ایسوسی ایشن(APSAA) کا قیام 6 اکتوبر 1992کو عمل میں آیا تھا جس کا صدر دفتر کراچی میں واقع ہے۔ ایسوسی ایشن میں رجسٹرڈ سیکیورٹی گارڈز کمپنیوں کی تعداد 364 سے زائد ہے اور ان کمپنیوں میں خدمات انجام دینے والے تربیت یافتہ سیکیورٹی گارڈز کی تعداد 40,344 سے زائد بتائی جاتی ہے۔ایسوسی ایشن کی جانب سے رکن سیکیورٹی کمپنیوں کو سیکیورٹی کے شعبہ میں مختلف نوعیت کی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کے سیکیورٹی گارڈز کو سیکیورٹی اور سیفٹی کے نظم و ضبط کی تربیت فراہم کرنے کے لئے پہلا تربیتی اسکول 1999میں کراچی میں اور دوسرا تربیتی اسکول 2012 میں لاہور میں قائم کیا گیا تھا۔قواعد و ضوابط کے مطابق پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز کے لئے لازم ہے کہ وہ دوران ڈیوٹی منظور شدہ نیلے رنگ کی وردی زیب تن کریں گے جس کے دائیں کاندھے پر سیکیوریٹی گارڈ کا بیج اور بائیں کاندھے پر کمپنی کے نام کا شناختی بیج لگانا لازمی ہے۔ ایسوسی ایشن نے سیکیورٹی کمپنیوں کے خلاف شکایات کے ازالہ کے لئے شکایت سیل بھی قائم کیا ہوا ہے۔ جہاں متاثرہ شہری اور ادارے ان نمبروں 021-99213410-20 پر اپنی شکایت درج کرا سکتے ہیں ۔
معاشرہ میں تیزی سے بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم اور دیگر نوعیت کے جرائم کی بھیانک صورت حال کے باعث سیکیورٹی گارڈز معاشرہ میں نہتے شہریوں کے جان و مال اور سرکاری و نجی اداروں کی املاک کی دیکھ بھال اور ان کے دفاتر اور عمارتوں کی ممکنہ حفاظت کے لئے ایک متوازی حفاظتی فورس(Parallel Security Force) کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ غلام نبی میمن نے 8 جون 2024 کو اپنے ایک بیان میں یہ حیرت انگیز انکشاف کیا تھا کہ کراچی میں پولیس اہلکاروں کے مقابلہ میں سیکیورٹی گارڈز کی تعداد تجاوز کرگئی ہے ۔ جس کے مطابق شہر میں پولیس اہلکاروں کی تعداد 44,436 اور سیکیورٹی گارڈ کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔
ملک میں قائم سینکڑوں سیکیورٹی گارڈز کمپنیاں انفرادی طور پر اور مختلف سرکاری و نجی صنعتی، کاروباری اور تجارتی اداروں کو اپنی کمپنی کے مسلح سیکیورٹی گارڈ کی خدمات فراہم کرتی ہیں۔ جن کے ذریعہ مسلح سیکیورٹی گارڈز شہریوں کی جان و مال کی دیکھ بھال اور حفاظت کرنے کے علاوہ سرکاری و نجی اداروں کی مالیات اور املاک کی حفاظتی ڈیوٹی انجام دینے کے علاوہ سرکاری و تجارتی بینکوں اور مالیاتی اداروں کی بھاری رقوم کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی اور سرکاری و نجی دفاتر کی عمارات کی الیکٹرونک نگہداری اور نگرانی کی خدمات بھی فراہم کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے ملک میں کئی اقسام کے سیکیورٹی گارڈز کی خدمات ہمہ وقت دستیاب ہیں۔ جن میں غیر مسلح سیکیورٹی گارڈ، مسلح سیکیورٹی گارڈز، لیڈی سرچرز، ذاتی باڈی گارڈز ، کمانڈوز(پاک فوج کے اسپیشل سروسز گروپ(SSG) کے سابق ارکان) پر مشتمل وی آئی پی سیکیورٹی ٹیم، ایونٹ سیکیورٹی ٹیم، بلٹ پروف گاڑیاں، موبائل ایسکارٹ سروسز اور کلوز پروٹیکشن ٹیم جیسی سہولیات شامل ہیں۔جبکہ ملک میں قائم چھ بڑی سیکیورٹی گارڈز کمپنیوں کے انتہائی پیشہ ورانہ تربیت یافتہ، جدید اسلحہ اور ضروری آلات سے لیس مسلح سیکیورٹی گارڈز مختلف شہروں میں اہم سرکاری و نجی عمارتوں، اہم تنصیبات، اہم سرکاری، کاروباری اور معروف شخصیات، غیر ملکیوں اور سفارت کاروں کی نقل و حرکت کی دیکھ بھال اور ان کی ممکنہ حفاظت کے ساتھ ساتھ ان کی رہائش گاہوں،قونصل خانوں اور سفارت خانوں کی عمارتوں کی شب و روز دیکھ بھال اور حفاظت پر مامور ہیں ۔اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے لحاظ سے مسلح سیکیورٹی گارڈز کی بنیادی ذمہ داریوں میں حفاظت کی غرض سے سپرد کئے گئے افراد کی ممکنہ حفاظت، نقل و حرکت اور آمد و رفت کو محفوظ بنانے اور ان اداروں کی ہر ممکن حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے معیاری خدمات فراہم کرنا ہے۔ جبکہ سیکیورٹی گارڈز کی دیگر ذمہ داریوں میں مختلف سرکاری و نجی عمارتوں، تجارتی جائیدادوں اور رہائشی کمپلیکس میں تعیناتی کے دوران غیر مجاز افراد کی غیر قانونی سرگرمیوں، دراندازی کی روک تھام، انہیں چوری اور لوٹ مار تک رسائی سے باز رکھنا اور مکینوں کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے دیگر ممکنہ خطرات کا مقابلہ کرنا ہے۔
لیکن افسوس انتہائی قیمتی انسانی جان ومال اور ان کی املاک کی شب و روز دیکھ بھال اور حفاظت کو یقینی بنانے کی اہم ذمہ داریاں انجام دینے اور اس مقصد کے لئے ہمہ وقت اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر جان لیوا خطرات کا سامنا کرنے والے لاکھوں سیکیورٹی گارڈز "ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات” کی عملی تفسیر بنے ہوئے ہیں۔ کمپنی مالکان کی جانب سے ان مظلوم اور مجبور سیکیورٹی گارڈز کا زبردست جسمانی اور مالی استحصال کرتے ہوئے ان سے 8 گھنٹے (ایک گھنٹہ آرام کا وقفہ) کی مقررہ ڈیوٹی کے بجائے غیر قانونی طور پر 12 گھنٹے کام لیا جاتا ہے جو سراسر خلاف قانون اور اس عمل کے ذمہ دار مستوجب سزا ہیں ۔ سیکیورٹی گارڈز اپنی پیشہ ورانہ غیر معمولی خدمات کے عوض انتہائی قلیل معاوضے پاتے ہیں اور حیرت انگیز طور پر قانون کے مطابق ہفتہ واری تعطیل، تہواری تعطیلات اور مروجہ مزدور قوانین کے تحت دیگر بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں ۔
ملک بھر میں اب تک نہ جانے کتنے مظلوم سیکیورٹی گارڈز اپنے فرائض کی بجا آوری کے دوران سفاک مجرموں کے ہاتھوں اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔لیکن اس کے باوجود ان جانبازوں کی سرفروشی اور شہریوں کے جان و مال اور سرکاری و نجی اداروں کی مالیات اور املاک کی حفاظت کے لئے ان کی غیر معمولی خدمات کو قومی سطح پر سراہا نہیں جاتا اور نہ ہی انہیں تمغہ شجاعت کا مستحق سمجھا گیا ہے۔ یہ سیکیورٹی گارڈز گم نام سپاہیوں کی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فراموش کر دیئے گئے ہیں۔جو پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
معاشرہ میں امن و امان کی روز افزوں بگڑتی ہوئی گھمبیر صورت حال اور جرائم کی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ کے باعث سیکیورٹی گارڈز کمپنیاں ملک میں روزگار کی فراہمی کا ایک بڑا ذریعہ بن چکی ہیں۔ غالبا سیکیورٹی گارڈز ملک کا وہ واحد شعبہ ہے جہاں سیکیورٹی گارڈز کی نوکری فراہم کرنے کے لئے 24 گھنٹے بھرتی جاری رہتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں اکثر اوقات بیروزگار اور معاشی حالات سے مجبور افراد بھی وقت گزاری کے لئے سیکیورٹی گارڈ بھرتی ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔جس کے نتیجہ میں بیشتر سیکیورٹی گارڈز جسمانی طور پر ان فٹ، مختلف امراض میں مبتلا اور آتشیں اسلحہ چلانے کے تربیت سے نابلد نظر آتے ہیں ۔جبکہ مجرمانہ ذہنیت کے حامل بعض سیکیورٹی گارڈز چوری اور ڈکیتی اور دیگر جرائم کی وارداتوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔
شہریوں کی جان ومال اور سرکاری و نجی اداروں کی
قیمتی املاک کی دیکھ بھال اور حفاظت پر مامور مظلوم اور مجبور سیکیورٹی گارڈز چونکہ انتہائی خطرناک ماحول میں اور قدم قدم پر سفاک مجرموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ لہذاء انہیں کسی بھی ناگہانی کی صورت میں مالی تحفظ فراہم کرنے کے لئے "لائف انشورنس” کی سہولت فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ مشاہدہ ہے کہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران سنگدل مجرموں کے ہاتھوں بیدردی سے شدید زخمی یا قتل ہو جانے کی صورت ان کے اہل خانہ بے آسرا ہو جاتے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ اس گھمبیر صورت حال کی روشنی میں سیکیورٹی گارڈز کی بے بسی اور ان کا زبردست جسمانی و مالی استحصال کئے جانے کے باعث اس مظلوم طبقہ کا شمار دور جدید کے غلاموں
( Modern Slaves)
میں کیا جا سکتا ہے ۔
سیکیورٹی گارڈز اپنے اہم اور انتہائی ذمہ دار پیشہ کے لحاظ سے غیر ہنر مند کارکن کے مقابلہ میں نا صرف ہنرمند کارکنوں میں شمار ہوتے ہیں بلکہ ایک تربیت یافتہ حفاظتی فورس کے رکن کی حیثیت سے معاشرہ میں باعزت مقام کے مستحق بھی ہیں۔ لہذا انہیں غیر ہنر مند کارکنوں کے ذمرہ میں ڈال کر فرسودہ کم از کم اجرت نظام سے منسلک کرنا سراسر غیر قانونی عمل اور سخت نا انصافی کے مترادف ہے۔ لاکھوں سیکورٹی گارڈز کی مجبوریوں اور کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے انتہائی سخت حالات کار میں غیر قانونی طور پر 12 گھنٹے تک انتھک ڈیوٹی لی جاتی ہے۔ جبکہ حکومت نے مروجہ مزدور قوانین کے تحت کارکنوں کے لئے 8 گھنٹے کے اوقات کار ( ایک گھنٹہ وقفہ آرام) مقرر کئے ہوئے ہیں۔اسی طرح سیکیورٹی گارڈز کی اکثریت منصفانہ اجرتوں،اضافی کام کے لئے اوور ٹائم، ہفتہ وار تعطیل، تہواری تعطیلات، ایمپلائیز سوشل سیکیورٹی سے اپنے اور اہل خانہ کے لئے مفت علاج و معالجہ کی سہولیات اور نقد مالی امداد، گروپ انشورنس، لائف انشورنس ، گریجویٹی، EOBI رجسٹریشن کارڈ PI-03 اور EOBI بڑھاپا پنشن جیسی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں ۔ مشاہدہ میں یہ بھی آیا ہے کہ بعض سیکیورٹی گارڈز انتہائی قلیل اجرتوں کے باعث تین وقت کا کھانا کھانے کی استطاعت تک نہیں رکھتے اور وہ اپنی عزت نفس مجروح کرتے ہوئے شہر میں قائم خیراتی دستر خوانوں پر اپنے پیٹ کی آگ بجھانے پر مجبور ہیں ۔
لہذاء وقت کا تقاضہ ہے کہ ملک میں لاکھوں سیکیورٹی گارڈز کی جانب سے شب و روز شہریوں کی جان و مال کی دیکھ بھال اور حفاظت و سلامتی اور سرکاری و نجی اداروں کی مالیات اور املاک کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے عسکری انداز کی غیر معمولی ڈیوٹی انجام دینے ، سخت حالات کار کے باوجود غیر منصفانہ اجرتوں، ہفتہ واری تعطیل اور تہواری تعطیلات میں بھی ڈیوٹی کا فریضہ انجام دینے اور مروجہ مزدور قوانین کے تحت بنیادی سہولیات سے محرومی کے عنصر کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری قانون سازی کے ذریعہ سیکیورٹی گارڈز کے شعبہ کو بھی لازمی سروس کے دیگر شعبوں کی طرز پر لازمی سروس (Essential Service)کا درجہ دیا جائے اور اس مستحق مظلوم طبقہ کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے منصفانہ اجرتوں، بنیادی سہولیات اور مراعات کا ڈھانچہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ کسی آرام کے وقفہ بغیر طویل اوقات کار، نامساعد حالات کار، قلیل اجرتوں اور مروجہ مزدور قوانین کے مطابق بنیادی سہولیات سے محرومی اور انسانی بساط سے زائد محنت و مشقت لئے جانےکے نتیجہ میں اکثر سیکیورٹی گارڈز سخت ذہنی دباؤ اور احساس محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔جس کے نتیجہ میں ان میں منشیات کے استعمال، نفسیاتی امراض، خرابی صحت، چڑچڑا پن اور مزاج میں جارحانہ پن پیدا ہو جاتا ہے جس کے شاخسانہ کے طور پر اکثر اوقات سیکیورٹی گارڈز کی جانب سے شہریوں سے بلاجواز تلخ کلامی، غیض و غضب کے مظاہرے، چوری اور ڈکیتی اور نہتے شہریوں اور اپنے ساتھیوں پر بلاجواز گولی چلا دینا اور بعض اوقات خود کو بھی گولی مارکر اپنی جان کا خاتمہ کرنے جیسے دل سوز واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔
ملک میں ایک طویل عرصہ سے مظلوم اور بے بس انسانوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاکر اور انہیں سیکیورٹی گارڈز کی نوکریاں فراہم کرنے کے نام پر بدترین انسانی خرید و فروخت (Human Trading) اور استحصال کا سلسلہ جارہی ہے جس کی فوری طور پر روک تھام کی ضرورت ہے۔ معاشرہ کے اس انتہائی کمزور طبقہ کے ساتھ یہ غیر انسانی طرز عمل عظیم اسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان میں دیئے گئے بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے مترادف ہے اور اس فعل میں ملوث افراد قانون کے مطابق مستوجب سزا ہیں ۔ سیکیورٹی گارڈز کی عام شکایت یہ بھی ہے کہ ایک تو ان کی اجرتیں ان کے انتہائی سخت کام کے مقابلہ میں ویسے ہی بیحد قلیل اور بنیادی سہولیات ناپید ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ بعض اوقات انہیں ماہانہ اجرتیں بھی کافی تاخیر سے ادا کی جاتی ہیں اور بعض غیر ذمہ دار کمپنیوں کی جانب سے وردی، ٹوپی اور جوتے جیسی ضروری چیزیں بھی بمشکل فراہم کی جاتی ہیں اور اکثر و بیشتر سیکیورٹی گارڈز کی اجرتوں سے بلاجواز کٹوتی بھی کرلی جاتی ہے ۔ ان مظلوم سیکیوریٹی گارڈز کے ساتھ کمپنی کے اسٹاف کا رویہ بھی غیر ذمہ دارانہ ہوتا ہے۔ لہذاء انصاف کا صریح تقاضہ ہے کہ لاکھوں مظلوم اور بے زبان سیکیورٹی گارڈز کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری طور پر ضروری قانون سازی کرکے انہیں قانون کے مطابق جائز حقوق اور بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔