کراچی: آج سنڈیکیٹ کا اجلاس ہوا جو چار گھنٹے جاری رہا. ایک گھنٹہ بحث اس پر ہوتی رہی کہ اکیڈمک کونسل کی روداد سنڈیکیٹ میں پیش ہونی چاہئے کہ نہیں، اس دوران سارا وقت منٹس پر بات کرنے کے بجائے منٹس پیش کرنے پر ضائع ہوا. پھر مراملہ 54 افسران کو بناء سلیکشن بورڈ گریڈ 17 سے 18/19/20 کا تھا. ان کی ڈی پی سی کے قوانین سنڈیکیٹ سے 2018 میں منظور ہوئے جس میں ایک نمائندہ سنڈیکیٹ سے ہونا تھا مگر سنڈیکیٹ سے نمائندہ لیے بغیر 2023 میں ڈی پی سی کر دی گئی. 21/24 امیدوار ایسے تھے جو پہلے ہی بناء سلیکشن بورڈ ایک یا دو بار وی سی پروموٹ کر چکے. جب یہ سوال ہوا کہ اساتذہ کے سلیکشن بورڈ میں درجنوں اساتذہ کو اس لیے نہیں بنایا گیا کہ پوسٹ نہیں تو کیسے بناء پوسٹ افسران کو ترقی دی جا رہی تو اس پر وائس چانسلرز صاحب کے پاس کوئی جواب نہ تھا. ووٹنگ ہوئی اور وی سی ووٹ کاسٹ ہونے کی وجہ سے سے منظوری دی گئی. یہاں ڈیڑھ گھنٹہ صرف سننے نہ سننے کی بحث ہوئی لیکن کسی ایک بھی کیس پر بات کیے بغیر تمام 54 کو ترقی دے دی گئی. وائس چانسلر اور انکے سلیکشن بورڈ و سنڈیکیٹ میں ساتھیوں کو اساتذہ کے معاملے میں پوسٹ اور قوانین نظر آتے ہیں، ریفر بیک نہیں ہو سکتا مگر اپنے من پسند افراد کو ترقی دیتے وقت تمام قوانین بھول جاتے ہیں. اس پر میرا نوٹ آف ڈسنٹ ہے. ملازمین کے بچوں کی اسکول فیس کا معاملہ یہ کہہ کر ادھر ادھر کیا گیا کہ اس کے بجائے اسکالرشپ دی جائے جبکہ جو ایک صفحہ کا ورکنگ پیپر تھا اس میں تین سے سات ہزار فی بچہ سالانہ درج تھا جو فنانس پلاننگ سے مشروط تھا. اسے ٹالنے کے لیے معاملہ فنانس پلاننگ کو بھیج دیا گیا. مقصد یہ بنا کہ بچوں کی فیس کی رقم جو سالہا سال سے دی جا رہی تھی وہ گزشتہ چار سال سے بند ہے یہ بندش جاری رہے گی. ایک جانب درجنوں کو بار بار ترقی بناء سلیکشن بورڈ و پوسٹ و فنانس پلاننگ منظوری دی جا رہی ہے اور دوسری جانب اساتذہ اور ملازمین کو بہانے بہانے حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے. اس کے علاوہ نہ ایکشن رپورٹڈ بائی وائس چانسلر پر بات کرنے دی گئی اور بات نہ کرنے کو ووٹ سے ختم کر دیا گیا. کوئی اور امر بااجازت سنڈیکیٹ میں وائس چانسلر یہ کہہ کر اٹھ گئے کہ کوئی اینی آدر آئٹم نہ ہو گا.
جامعہ کراچی سنڈیکیٹ اجلاس کی اندرونی کہانی
متعلقہ خبریں