تحریر : فارینہ حیدر
النور ڈگری کالج کا معاملہ اب بہت تکلیف دہ ہو گیا ہے. یہ وہی کالج ہے جس پر نگراں وزیر اعلیٰ سندھ نے چھاپہ مارا تھا اور باتھ روم کی کنڈی نہ ہونے پر کالج کی پرنسپل یاسمین قریشی جو کہ گریڈ 20 کی نوٹیفائییڈ پروفیسر تھیں انھیں 3 ماہ کے لیے معطل کر دیا تھا ۔ ان کے ساتھ ڈائریکٹر جنرل کالجز پروفیسر سندھ شاداب حسین اور ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر جہاں آراء کو بھی معطل کیا تھا ۔
واضح رہے کہ ستمبر میں نگراں وزیر اعلیٰ نے چھاپہ مارا تھا اور تین ماہ کے لیے یہ لوگ معطل تھے ۔ ان کے ساتھ ایک لیکچرار کا بھرپور طریقے سے نام اچھالا گیا کہ وہ کالج میں نہیں تھیں اور اسے بھی معطل کیا گیا ہے ، جب کہ وہ لیکچرار چھاپے سے تھوڑی دیر پہلے پرنسپل کو بتا کر گئی تھیں ۔ اس لیکچرار کا معاملہ یہ تھا کہ اسے گریڈ 18 میں کالج کے کچھ پروفیسر جس میں معطل شدہ ایسوسی ایٹ پروفیسر جہاں آراء بھی شامل تھی جوائنگ نہیں لینے دے رہے تھے ۔ جب کہ حکومت نے اسی کالج میں اس کی پوسٹنگ کی تھی اور یہ معاملہ چیف سیکرٹری کے پاس پہلے سے موجود تھا ۔ معطلی کی خبر پر جب اس کیس کی شنوائی چیف سیکرٹری کے پاس ہوئی تو انھوں نے لیکچرار کو معطل کرنے کا نوٹیفکیشن نہیں دیا ۔
اس سیدھے سادھے معاملے کو سندھ حکومت کے راشی افسران نے انتہائی پیچیدہ بنا دیا ہے، ہونا یہ تھا کہ تین ماہ بعد معطل ہوئے افسران کو واپس اپنی جگہوں پر آنا تھا اور لیکچرار کی گریڈ 18 میں جوائننگ ہونی تھی لیکن سندھ سکریٹریٹ کے راشی افسران نے اسے بھی اپنی کمائی کا زریعہ بنا لیا۔ اس مقصد کے لیے سپلا ٹائم اسکیل کی پروفیسر رضوانہ زاہد جو کہ ناظم آباد کالج کی پرنسپل تھی اسے النور ڈگری کالج کا بھی غیر قانونی طور پر چارج دے دیا گیا ۔
رضوانہ زاہد نے پہلا کام یہ کیا کہ جو معطل شدہ افسران تھے ۔ ان کی واپسی سے پہلے ہی انہیں انکوائری پر دوبارہ ڈال دیا ۔ لیکچرار چونکہ حالات دیکھ رہی تھی ۔ اس لیے اس نے اپنی جوائننگ کا کیس صوبائی محتسب سندھ میں ڈال دیا ۔
اب 3 ماہ سے صوبائی محتسب سندھ سیکرٹری کالجز کو لیٹر پر لیٹر بھیج رہا ہے کہ یہ بتایا جائے کہ لیکچرار کی جوائننگ اب تک کیوں نہیں ہوئی تو سیکرٹری کالجز جو کہ خود ایک خاتون ہے، پنجاب کا ڈومیسائل رکھتی ہے اور سندھ ایجوکیشن کی گریڈ 19 کی ملازمہ ہے پورے سندھ کو پاگل بنا رہی ہے جبکہ سیکریٹری کی سیٹ کے لیے پی اے ایس کے افسران ہی اہل ہوتے ہیں ۔
ان تین ماہ میں سیکرٹری کالجز نے راشی افسران کے ساتھ مل کر زندگی عذاب بنا دی ہے اور رضوانہ زاہد کے زریعے بار بار سی ایم کی دھمکیاں دے رہی ہے اور ایک معمولی کیس کی انکوائری پر انکوائری ڈال رہی ہے ۔ اس وقت ترقی اور نئی پوسٹنگ دینے میں سندھ سکریٹریٹ میں لاکھوں روپے کی رشوت چل رہی ہے اور جو رشوت نہیں دے سکتا تو اس سے من پسند کام کرنے کے لئیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے جیسا کہ سب کو معلوم ہے الیکشن میں پندرہ دن رہ گئے ہیں اور سیاسی جماعتیں جن کی حالت اس وقت بہت خراب ہے نگراں سیٹ اپ کے نام پر اپنے راشی افسران کو استعمال کر رہی ہے تاکہ وہ انہیں پیسہ اور اقتدار دونوں دلائے ۔
رضوانہ زاہد ایک انٹر کالج کی پرنسپل ہے لیکن جامعہ کراچی کے سینیٹ اور ایکڈمک کونسل کی نشست کے لیے اپنے کاغذات جمع کرائے ہیں جوکہ غیر قانونی کیونکہ اس نشست کے لیے پرنسپل کا ڈگری کالج کا ہیڈ ہونا ضروری ہے جبکہ النور ڈگری کالج صرف انٹر تک ہے ۔
حکام بالا ان راشی افسران کے خلاف جلد از جلد کاروائی کریں کیونکہ یہ لوگ مخالف افسران کو اپنے مقصد میں استعمال کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں. خاص کر سیکرٹری کالجز اور رضوانہ زاہد کو فوری طور پر ان کے متعلقہ شعبے اور کالج میں واپس بھیجے اور معطل شدہ افسران سمیت دیگر افسران کے مسائل فوری طور پر حل کریں ۔