ارادہ سفر:
ایک مصروف و متحرک تعلیمی و تحریکی زندگی گزارنے کے بعد پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کا آغاز ہوا تو دارارقم کے بعد رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی میں ڈاکٹر انیس احمد صاحب کی زیر سرپرستی بطور ڈائریکٹر تربیہ ذمہ داری سنبھالی۔ جس کے تحت طلبہ ، اساتذہ، والدین ، معاون عملہ و عام عوام سے رابطے کا ایک بڑا موقع میسر آیا جس میں نہ صرف تعلیمی امور کی نگرانی کرنا تھی بلکہ طلبہ و طالبات کو درپیش مسائل میں راہنمائی کرنا، اساتذہ کی پیشہ وارانہ و فکری تربیت کرنا، بچوں کی تربیت میں والدین کو ان کا کردار سمجھانا اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کے سبب ٹوٹتے رشتوں اور تعلقات کی بہتری کے لئے زوجین کے لئے تربیتی پروگرامات تک کروانے کا موقع ملا۔ ایسے میں جہاں بہت کچھ نئے تجربات و مشاہدات ہوئے وہاں بہت کچھ سیکھنے کا موقع میسر آیا۔
ضرورت پڑنے پر پیشہ وارانہ قابلیت و تعلیمی استعداد بڑھانے کے لئے کورسز بھی کئے تاکہ عطا کردہ ذمہ داریوں کو بہ حسن و خوبی نبھایا جاسکے۔اسی سلسلے کی ایک کڑی بین الاقوامی اسفار کا طے پانا بھی تھا کہ جس کے ذریعے رب کے حکم سیروا فی الارض کی تکمیل کرتے ہوئے دیگر اقوام کو جاننا اور ان کے مفید تجربات سے استفادہ کرنا بھی تھا۔ اس مقصد کی تکمیل کے لئے سب سے پہلے اسلامی تاریخ کی عظیم یادگار ترکی کو منتخب کیا گیا کہ جس کی فتح کی تحریض پاک پیغمبر (ص) نے دلائی اور جو صدیوں تک مسلم امہ کا ایک مضبوط قلعہ ثابت ہوتا رہا۔
ترکی کو دیکھنے اور اس کے احوال سے متاثر ہونے کے ساتھ یہ قلق بھی رہی کہ جانا جائے کہ ہم سے یہ دنیا کی امامت آخر کیوں چھن گئی تبھی اس مسئلہ کو ایک مستقل عنوان بنانے کا فیصلہ کیا اور آئندہ بین الاقوامی اسفار میں اسی جانچ کو پیش نظر رکھتے ہوئے سفر کرنے کا عزم کیا۔
تبھی آئندہ سال ہی سب سے بڑی مسلم ریاست انڈونیشیا، تیزی سے ترقی کرتی مسلم ریاست ملائیشیا اور حال ہی میں معاشی طور پر تباہ ہوتی ریاست سری لنکا کا دورہ طے کیا اور دوستوں کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ دورے میں سیکھی و سمجھی جانے والی بہت سی باتوں میں تکرار کے ساتھ جس کا ذکر آیا وہ استعماری طاقتوں کا بالخصوص مسلم دنیا اور بالعموم پوری دنیا پر اپنا تسلط جمانا تھا۔ ہر ملک کی ایک اپنی ہی داستان تھی جس کا آغاز یا تو آزادی سے ہوتا تھا یا غلامی کی بدحالی سے ہوتا ہوا استعماری جبر سے خلاصی کے احوال سے ہوتا تھا۔ تبھی یہ خواہش ہوئی کہ لامحالہ اگر تین براعظموں پر مشتمل خلافت اسلامیہ کے مرکز ترکی کا دورہ کیا ہے تو بہر صورت اس مملکت کا دورہ بھی نہایت ضروری ہے جس نے صدیوں تلک کم و بیش اسّی فیصد دنیا پر راج کیا اور جس کی سلطنت میں سورج غروب نہ ہوتا تھا آیا اس کو بھی قریب سے دیکھا جائے اور ان کی اس عروج کی داستان کا مشاہدہ بھی کیا جائے۔
برطانیہ کے دورہ کا خیال ابھی دل کے نہاں خانوں میں کہیں کروٹیں ہی لے رہا تھا کہ محترم ڈاکٹر ہدایت الرحمن صاحب کی جانب سے برطانیہ میں ہونے والی دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی دعوت موصول ہوئی اور اصرار ہوا کہ اس پر ضرور شرکت کی جائے۔ تعجب ہوا کہ ابھی تو ہم انگلستان جانے کی منصوبہ بندی اور مشورے ہی کر رہے تھے کہ اچانک یہ دعوت خود گھر چل کر کیسے آگئی۔ یقین ہوا کہ یہ سفر رب کی طرف سے ہی قرار پایا ہے وگرنہ اس کے لئے ابھی کچھ معمولی قدم بھی نہیں اٹھایا گیا تھا۔
محترم ڈاکٹر صاحب کے اصرار پر حامی تو بھر لی مگر کوئی خاص پیش رفت نہ کر سکا اور نہ ہوسکی۔ بھلا ہو ڈاکٹر صاحب کا جنہوں نے کچھ ہی دن بعد دوبارہ رابطہ کیا اور فرار کا موقع نہ دیتے ہوئے مجھے فوری آنلائن آنے کا کہا اور رات دس بجے سے شروع ہونے والی کال کم و بیش دو بجے اس وقت اختتام پذیر ہوئی جب ہم نے مل کر انگلستان کے لئے اپلائی نہ کردیا بلکہ ویزہ فیس بھی جمع کروا ڈالی۔ اس سارے عمل میں نہ کسی ٹریول ایجنٹ کی ضرورت پڑی اور نہ کسی کنسلٹنٹ کی بلکہ جناب کی راہنمائی میں ہی سارا کام مکمل ہوگیا۔ دوران کال بھی اور اختتام پر بھی ورطۂ حیرت میں مبتلا رہا کہ ڈاکٹر صاحب آخر اس قدر تعاون کیوں کئے دے رہے ہیں۔ جبکہ ہمارا تعارف اور ملاقات اس سے قبل صرف ایک بار ہوئی کہ جب وہ جناب ڈاکٹر ایہاب الشامی (چانسلر امریکی بین الاقوامی تھیزم یونیورسٹی فلوریڈا) کے ہمراہ رفاہ فیصل آباد اور امہ انٹرنیشل کالجز کے دورہ پر آئے تھے۔
یہ عقدہ بھی طویل کال پر فارم پُر کرنے کے بعد ہی حل ہوگیا جب انہوں نے آخر پر کہا کہ برادر عزیز یہ سب کام میں صرف رضائے الٰہی کے حصول کے لئے فی سبیل اللہ کر رہا ہوں اور آپ کو دعوت دینے میں میری دلچسپی اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ میں آپ کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر خیر کے کاموں میں مصروف و متحرک پاتا تھا تو مجھے خواہش ہوئی کہ آپ کو بین الاقوامی سطح پر خود کو متعارف کروانے کی ضرورت ہے تاکہ آپ کے اس خیر کے کام کو مزید مضبوطی اور وسیع میدان ملے۔
ان کی دلچسپی اور تعاون کی بابت جان کر دل کو سکون ملا، ان کی اس حوصلہ افزائی پر ان کا شکریہ ادا کیا اور دعاؤں کی درخواست کی۔
مقررہ تاریخ پر تمام دستاویزات کی تکمیل کے بعد حافظ مدثر بھائی کے ہمراہ کاغذات جمع کروانے انگلستان کے نمائندہ دفتر لاہور جانا ہوا جس کے بعد تیسرے ہفتے میں ہی ویزہ کی ای میل موصول ہوئی اور اگلے ہی دن پاسپورٹ انگلستان کے ویزہ کی مہر لئے بذریعہ ڈاک گھر آگیا۔
(جاری ہے)