تحریر: ڈاکٹر عامر طاسین
یوں تو دینی مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ گزشتہ سا ت دھائیوں سے چلتا آرہا ہے۔ ہر سیاسی حکومت کے درمیان پانچ معروف وفاقات کے سربراہان کے مذاکرات بھی چلتے رہے۔ لیکن مستحکم اور پائیدار حل نہ نکل سکنے کے باعث، طریفین کی جانب سےمختلف اسباب و وجوہات رکاوٹ کا باعث بنی رہی ہے۔ حالیہ دینی مدارس رجسٹریشن کا معاملہ بھی کچھ اسی نوعیت کا سامنے آیا۔
پاکستان کے سب سے معروف دینی مدارس وفاق جوکہ دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے اور اس وفاق سے جڑے پورے پاکستان ، آزاد کشمیر پر مشتمل ہزاروں کی تعداد میں مدارس موجود ہیں۔ اسی دینی وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سرپرست اعلیٰ اور جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن صاحب سے حکومت نے 26 ویں ترمیم پر مشاورت کی تو مدارس کے تحفظ کے لیے سوسائٹی ایکٹ کی 21 ویں شق پر بھی حتمی رائے قائم ہوئی اور بل تیار ہوا۔ جسے اتفاق رائے کے بعد قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظور کرلیا گیا ،تاہم صدر پاکستان کی جانب سے بل پر دستخط نہ کرنے اور اعتراض لگا کر واپس حکومت کے پاس بھیج دیا گیا۔ اعتراضات یہی پیش کیا جارہا ہے کہ جب ایک بل دو ایوانوں سے منظور کرلیا گیا ہو تو پھر صدر کی جانب سے اعتراض بے معنی سا لگتا ہے۔ اگر اعتراضات کو درست مان لیا جائے تو بات وزارت قانون اور وزیر تک جائے گی کہ آخر ایسا سقم کیسے رکھا گیا کہ وہ باعث اعتراض بن گیا اور اگر باعث اعتراض تھا، تو بل دونوں ایوان سے کیسے منظور ہوگیا۔ بحرحال یہ ایک سوال تو بنتاہے جس کا جواب حکومتی نمائندے ہی بہتر طور پر دے سکتے ہیں۔
طریقہ کار کے مطابق وزیر اعظم آفس ہو یا ایوان صدر، دونوں جگہ طریقہ کار ایک ہی ہے کہ اگروزیر اعظم پاکستان یا پھر صدر مملکت کو کسی بل /درخواست یا مسئلہ پر اعتراض لگانا مقصود ہوتو پھر ان دونوں ہی اہم مقامات پر موجود وزارت قانون کے سینئر و جونیئر افسران کے پاس سے فائل پر بالترتیب کانوٹ بنایا جاتا ہے اور اس طرح قانونی نقطہ نظر کی بنیاد پر کہیں سقم پا کر عدم جواز کے نکات لکھ کر کر جہاں سے فائل چلتی ہے وہاں واپس بھیج دیتے ہیں۔ اس طرح رد قبول/ مسترد/ قانونی سقم کا فارمولہ سامنے آجاتا ہے۔ اعتراض لگانا اور دور کرنا گویا کہ ایک فنی عمل ہے جوایک ماہر قانون افسر ہی لگا سکتا ہے۔ لیکن اسے درست کرنے کا اختیار بھی حکومت اور ان ہی اداروں کے پاس ہی ہوتا ہے۔ اس عمل میں تاخیری حربوں کو بھی ایک اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ معاملہ ٹھنڈا ہوجانے پر پھر رد و بدل کی کہانی چلنے لگتی ہے۔
ایک فریق کی جانب سےیہ اعتراض بھی سامنے آیا ہے کہ حکومت ہمارے مدارس کو زبردستی وزارت تعلیم کے تحت رجسٹرڈ کرانا چاہتے ہیں جوکہ ایک بیرونی ایجنڈہ لگتا ہے۔ تاکہ مستقبل بعید میں ان مدارس کے مالی معاملات اور ان کے نصاب میں در وبدل سے لے کر ہر قسم کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاسکے۔ ان خدشات، تحفظات میں کتنی صداقت ہے اور کتنا مفروضہ ، یہ تو معلوم نہیں۔ ممکن ہے وقت آنے پر ساری بات کھل جائے۔
دوسری جانب میڈیا پر دینی مدارس کے دو گروپ آمنے سامنے آگئے جوکہ نہیں آنے چاہیئے تھے۔ لیکن ظاہر ہے کہ معاملہ دونوں طرف کے لیے سنجیدہ تھا۔ ہر کسی کو اپنے تئیں، اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔ ایک کی خواہش وزارت تعلیم سے اور دوسرے کی وزارت صنعت میں سوسائٹی ایکٹ سے رجسٹرد ہونے کی ہے۔ اب کس کی بات کتنی مستحکم ہے اور کسی کی کتنی کمزور، اس کا ادراک ہر پاکستانی شہری تو یقینا ہر گز نہیں کرسکتا ہے۔ البتہ حکومت کو چاہیئے تھا کہ ایک مرتبہ پھر سب کو ایک ساتھ بٹھا کر اس قضیہ کا حل نکالا جاتا ۔
میرا خیال یہ ہے کہ جنہوں نے سوسائٹی ایکٹ قانون کا مطالعہ نہیں کیا وہ کم از کم سوسائٹی ایکٹ کے قانون کو وزارت صنعت میں کیوں شامل کیا گیا ہے کے بغیر ضرور ایک مرتبہ مطالعہ فرمالیں۔ امید ہے کہ انہیں مثبت معلومات بھی مل سکے گی۔ دوسری بات جنہیں کسی بھی حکومت کے ایگزیکٹیو آرڈر اور کیبنٹ سے منظوری کا طریقہ کار اور اس کی اہمیت و حیثیت کا معلوم نہیں ہے تو وہ بھی کسی قانون کے ماہر سے معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ تاکہ دونوں رجسٹریشن کے طریقہ کار سمجھا جاسکے۔
میں یہاں سوسائٹی ایکٹ کے بارے میں انتہائی مختصر اور اہم نکات کی جانب توجہ دلانا چاہتا ہوں۔سوسائٹی ایکٹ جوکہ چیئر یٹی ایکٹ بھی کہلایا جاتا ہے۔ جس کے بنیادی مقاصد میں کمیونٹی کی ترقی، فنی اورثقافتی ورثہ کا فروغ، غربت کی روک تھام، صحت و زندگی کے بچاؤ کی خدمت ، میں تعلیم و تعلم کا فروغ ، مطالعاتی سرگرمیاں، مذہبی وملی ہم آہنگی کا فروغ، ماحولیات کا تحفظ اور ضرورت مندوں کی مدد و تعاون وغیرہ شامل ہیں۔ان مقاصد کے پیش نظر ایسے اداروں کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے جیسا کہ رفاہی ادارے، سماجی تنظیمیں، مساجد، گوردوارے، ٹیمپلز، گرجا گھر، لائبریری، تعلیمی ادارے ، ادبی ومذہبی انجمنیں، فلاحی اور رفاہی امور کے دیگر شامل ہوسکتے ہیں جن کا بنیادی مطمع نظر ان اداروں سے پیسہ کمانا یا بزنس کرنا نہیں بلکہ بغیر کسی مفادو غرض کے تعاون کرنا ہوتا ہے اور تعاون حاصل کرنے کی کئی مالی صورتیں جیسا کہ عطیہ، زکاۃ و خیرات کی وصولی ہوسکتی ہے۔
اب ایسے اداروں کو رجسٹرڈ کیسے کرنا ہے اور اس کے طے شدہ اصول وضوابط اور طریقہ کار کتنے ہیں ؟ جسے مکمل سمجھ کر قبول یا رد کیا جاسکتا ہے۔میری معلومات کے مطابق پاکستان میں خود دینی مدارس سے ہی وابستہ کئی اہل علم حضرات نے سوسائٹی ایکٹ کے تحت تعلیمی ، فلاحی اور رفاہی ادارے قائم کیے ہیں اور وہ بہت اچھے انداز میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ادارہ ان شرائط و تفصیلات پر پورا نہیں اتر سکے گا یا پابندی نہیں کرے گا یقینا اس کی رجسٹریشن منسوخ کردی جاتی ہے۔
موجودہ وزارت تعلیم کا دینی مدارس رجسٹریشن کا ادارہ( ڈائیریکٹوریٹ جنرل مذہبی تعلیم) جوکہ 2020 میں ایگزیکٹیو آرڈر اور کیبنٹ کی منظوری سے عمل میں لایا گیا ہے ۔ لہذا اایسے اداروں کے وجود کی ایک حد تک تو قانونی گنجائش تو ہے ۔ اگر ان اداروں کو باقاعدہ قانونی بل کی صورت دی جائے تو یقیناً ایک مستحکم عمل ہوگا جوکہ ایکٹ کہلائے گا۔ لیکن میری معلومات کے مطابق ایسا ہونا وفاقی حکومت کے لیے ممکن نہ ہوسکے گا کیونکہ پہلے سے رجسٹریشن کا باقاعدہ ایک قانون موجود ہے جوکہ سوسائٹی ایکٹ کہلاتا ہے۔ لہذا یسے اداروں پر فوری طور پر ایسا اعتراض کرنا ، نامناسب اور کمزور عمل ہوگا کہ ایسے اداروں کی قانونی حیثیت کمزور ہوتی ہے کیونکہ یہ ایکٹ کے تحت نہیں ہوتے ہیں اور یہ مستقل حل نہیں ،آگے نہیں چل سکے یا کوئی اور حکومت آئے گی اور ختم کردے گی۔ یہ خدشات، تحفظات اور ابہامات اپنی جگہ پر ،لیکن بہرحال ایسے اداروں کے قیام کے لیے استحکام ضروری ہوتا ہے۔
لیکن جب ہم ماضی جھروکوں سے جھانکتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایگزیکٹیو آرڈر سے دینی مدارس کے معاملات پہلے بھی چلتے رہے ہیں۔ جیسا کہ دینی مدارس وفاقات کو حاکم وقت جنرل ضیاء الحق نے آخری درجہ کی سند عالمیہ کے بدلے ایم اے اسلامیات/ عربی کا مساوی قرار دیااور اس کا اختیار اس وقت کی یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کو حاصل ہوا تھا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور پرویز مشرف کے دور حکومت میں وزیر مذہبی امور ڈاکٹر محمود احمد غازی کی جانب سے جب باقاعدہ 2001 میں ایک آرڈیننس لایا گیا جس میں مدارس رجسٹریشن کی شق کے علاوہ باقاعدہ پاکستان کے تمام دینی مدارس کو ثانوی عامہ و خاصہ، عالیہ اور عالمیہ تک تمام درجات کی اسناد کا معادلہ کی بھی واضح شق شامل کی گئی تھی۔ لیکن اس وقت چونکہ پرویز مشرف سے اختلافات کے سبب تمام ہی مکاتب فکر کے علمائے کرام اور دینی وفاقات کے سربراہان نے نہ اس آرڈیننس کو اور نہ ہی اس ادارے کو قبول کیا ۔ بلکہ پوری شدت کے ساتھ شامل ہونے سے انکار کردیا تھا۔ بلاشبہ ان تمام مدارس کے معززعلمائے کرام کی اس ادارے کو قبول نہ کرنے کی بہت سی وجوہات تھی ۔جس کا یہاں ذکر مقصود نہیں۔ لیکن دینی مدارس کو معادلہ جاری کرنے کا وہ اختیار جوکہ جنرل ضیاء الحق کے ایگزیکٹیو آڈر کے تحت یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کو ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت تفویض کیا گیا تھااور بعد میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں یونیوگرانٹ کمیشن کو ہائیر ایجوکیشن کی صورت میں باقاعدہ 2002 میں قانونی طور پر تبدیل کردیا گیا تو وہ معادلہ کا کام جو یونیورسٹی گرانٹ کمیشن ادا کررہا تھا وہی کام بعد میں بغیر کسی قانونی شق کے ہائیر ایجوکیشن کمیشن اب تک جاری رکھے ہوئے ہے۔جسے سب اہل مدارس اب تک قبول کرتے چلے آرہے ہیں۔ حالانکہ اس کی بھی مستحکم قانونی حیثیت پر اعتراض اور سوال اٹھانے والے اٹھا ئے ہیں جو وقت کے ساتھ کمزور ہوتے چلے گئے۔
لہذا حکومت کے ساتھ2019 میں اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ اسی تحریری معاہدہ پر عمل کرکے فوری طور پر ڈی جی آر ای کے قیام میں اپنی ہی خواہش کے مطابق بہتر سے بہتر تجاویز پیش کرکے عمل در آمد کرواسکتی تھی ۔ لیکن معلوم یہ ہوا کہ اس وقت کی حکومت نے بھی تیزی دکھائی اور دینی مدارس کے سرپرست مولانا فضل الرحمن صاحب سے سیاسی مخالفت کے باعث اسی ادارے” ڈی جی آر ای ” کے کاندھے پر بندوق رکھ کر ،مدارس رجسٹریش کے عمل کے بجائے ،ترجیحی طور پر نئے دینی مدارس کے وفاقات بنا کر تقسیم در تقسیم کا انگریزی فارمولہ اختیار کیا گیا۔ جس کے بعد اصولی طور پر حکومت ہی کی جانب سے 2019 کے معاہدہ کی خلاف ورزی سامنے آگئی۔
میں یہ بات بہت پہلے لکھ چکا ہوں کہ دینی مدارس کے وفاقات کی تقسیم در تقسیم کا عمل کوئی نیک شگون نہیں رکھتا ہے۔ بلکہ اندرونی طور پرمزید اختلافات ہی جنم لیں گے۔ یہ بات دیکھنے میں اور سمجھنے میں کتنی عجیب لگتی ہے کہ غالباً پاکستان میں اب دیوبندیوں کے چار ، بریلوی اہلسنت کے پانچ، اہل تشیع کے دو، اہل حدیث کے 2، جماعت اسلامی کا ایک دینی وفاق ہے۔ گویا کہ پاکستان 15 مختلف دینی مدارس کے وفاقات ہیں۔ جو اب حالیہ رجسٹریشن تنازعہ کے بعد مستقل دو گروپ میں سامنے آچکے ہیں۔ اس سارے عمل میں کچھ مذہبی علمائے کرام کی جانب سے باقاعدہ تحریر میں یہ اعتراض سامنے آیا ہے اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے مقابلہ میں نئے وفاقات قائم کرنے ضروری ہونگے اور موجودہ نئےوفاقات کے ذمہ داران علمائے کرام کو ایک حساس ادارے کے افسر کے کہنے پر راتوں رات ، جعلی کاغذی پلندوں کی فائل بنا کر ڈی جی آر ای میں جمع کراکے نئے وفاقات کے سرٹیفیکٹ جاری کرادیے گئے۔ کچھ تو ایسے بھی وفاق تھے جن کا زمینی وجود تک نہ تھا اور نہ ہی بعض وفاق کے پاس مدارس تھے اور جب ڈی جی آر ای سے کچھ حضرات نے ڈی جی آر ای کے ذمہ داران سے رابطہ کیا ہمیں وہ تمام رجسٹرڈ دینی مدارس اور وفاقات کی فہرست مہیا کی جائے تو یہ کہہ کر دینے سے انکار کردیا کہ ہمیں اوپر سے منع کیا گیا ہے۔ جس سے شکوک اور بڑھ جاتے ہیں۔ واللہ اعلم
میرا خیال ہے اب اس الجھن کو ختم ہوجانا چاہیے افہام و تفہیم کے ساتھ اس کا حل نکالنا چاہیئے جوکہ دینی وفاق اور مدارس رجسٹریشن وزارت تعلیم کے ماتحت” ڈائیریکٹوریٹ جنرل برائے مذہبی تعلیم” کرنا چاہتے ہیں انہیں سہولت مل جائے اور جن کی خواہش سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہونے کی ہے انہیں بھی سہولت ملنی چاہیئے۔ بس تمام وفاقات کو عصری چیلجز کے مطابق اپنے نصاب کو بہتر سے بہتر بنانے کی سعی کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس عمل کا سب سے زیادہ فائدہ ان طلبا ء کو ہی حاصل ہوگا جو معاشی طور پر بھی مستحکم ہوسکیں گے۔ لہذا اب سب دینی وفاقات کو رجسٹریشن کی فرسٹریشن سے باہر نکل آنا چاہیئے ۔