Home علاقائی ملتان کی بیٹی

ملتان کی بیٹی

عزم و ہمت کی عظیم داستان – ڈپٹی سیکرٹری قومی اسمبلی طاہرہ رسول چوہدری کی جدوجہد

سی این این پاکستان کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر، چیئرمین سینیٹ اور سابق وزیر اعظم جناب سید یوسف رضا گیلانی صاحب کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس تقریب نے مجھے پارلیمنٹ ہاؤس میں ڈپٹی سیکریٹری قومی اسمبلی، "دخترِ ملتان” طاہرہ رسول چوہدری سے ملاقات کا موقع فراہم کیا۔

عزم و ہمت کی عظیم مثال، میری بہن طاہرہ نے مجھے پرتپاک استقبال کیا اور ہم نے مل کر کچھ قیمتی لمحات گزارے، ملتان کی پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ طاہرہ رسول چوہدری کا تعلق بھی پیپلز کالونی ممتاز آباد ملتان سے ہے، اور 1992 میں انہیں ایک افسوسناک حادثے کا سامنا کرنا پڑا۔

جب وہ کالج جا رہی تھیں، جنرل بس اسٹینڈ ملتان پر ایک شخص نے ان پر تیزاب پھینک دیا، جس کے نتیجے میں ان کی بائیں آنکھ اور چہرے و جسم کا بایاں حصہ بری طرح متاثر ہوا۔ یہ واقعہ آج بھی میرے ذہن میں نقش ہے، کیونکہ اس وقت میں نے اپنی صحافتی ذمہ داری نبھاتے ہوئے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے سوال کیا تھا، "جناب وزیر اعظم، کیا طاہرہ رسول آپ کی بیٹی نہیں؟” اس سوال نے ایوانِ اقتدار میں ہلچل پیدا کی۔ روزنامہ "سنگ میل” ملتان کے چیف ایڈیٹر محترم امتیاز احمد روحانی صاحب نے اس تحریر کو "اشاعتِ خاص” میں شائع کیا، جس سے یہ سانحہ مزید اجاگر ہوا۔

"سنگ میل” نے اس دلدوز کہانی کو خصوصی سپلیمنٹ کے طور پر پورے صفحے پر شائع کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے فوری طور پر نوٹس لیا اور وزیر اعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کو ملتان روانہ کیا۔ نشتر اسپتال میں زیر علاج طاہرہ رسول چوہدری کی عیادت کی گئی اور ان کے علاج کے تمام اخراجات حکومت نے برداشت کرنے کا وعدہ کیا۔

طاہرہ نے ہمت نہ ہاری اور اپنی تعلیم جاری رکھی۔ کچھ عرصے تک صحافت سے منسلک رہنے کے بعد قومی اسمبلی میں ملازمت اختیار کی اور محنت سے ترقی کرتے ہوئے آج بطور ڈپٹی سیکریٹری خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان کی ہمت و عزم آج بھی محسوس کی جا سکتی ہے کہ ان کے حق میں کی گئی صحافتی کوششیں رائیگاں نہیں گئیں۔

یہ ملاقات نہ صرف ملتان کے گزرے وقتوں کی یادگار تھی بلکہ اس بات کا ثبوت بھی کہ صحافت جب انسانیت کی خدمت کے لیے آواز اٹھاتی ہے تو اس کے اثرات برسوں بعد بھی نمایاں رہتے ہیں۔

Exit mobile version