Home اسلام لڑکی کی شـادی تعلیـم مکمـل ہونے کے بعـد کروائیں گے

لڑکی کی شـادی تعلیـم مکمـل ہونے کے بعـد کروائیں گے

ایک نہایت غلط اور غیر شرعی سوچ لوگوں میں پیدا ہو گئی ھے کہ:-

* لڑکی کی تعلیم جب تک مکمل نہیں ہو جاتی تب تک اس کی شادی نہیں کرواتے اور نا ہونے دیتے ہیں۔ لڑکی کا رشتہ آئے تو عذر پیش کرتے ہیں کہ لڑکی ابھی پڑھ رہی ھے اس لیے ابھی اس کی شادی نہیں کر سکتے بلکہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد کریں گے۔ سوچ یہ ھے کہ لڑکی اپنے پیروں پر کھڑی ہوگی تو کل کو اگر اس کے خاوند نے طلاق دے دی یا معاشی مسئلہ ہو گیا تو وہ تعلیم کے بل بوتے پر اپنا گھر چلا سکے گی اور جتنی اعلیٰ تعلیم لے گی اتنا ہی اچھا رشتہ اس کو ملے گا۔

یہ ایک غلط سوچ ھے

اَصل:-

اس غلط سوچ کی ہمارے معاشرے میں پیدا ہونے کی وجہ کوئی اور نہیں ہم خود ہیں یعنی ہم مسلمان اور ہمارا کمزور ایمان، ہم بس نام کے مسلمان ہیں مگر مومن بننے کی کوشش نہیں کرتے یا پھر ہمیں مسلمان اور مومن میں فرق ہی معلوم نہیں۔ ہم دنیوی اور ظاہری اسباب پر ہی نظر رکھتے ہیں اور اللّٰه ﷻ پر یقین بس الفاظ کا رکھتے ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم ایک بہت ضروری امر ھے مگر تعلیم کی آپ کیا تعریف لیتے ہیں وہ مختلف ھے۔

¤ جدید معاشرے میں تعلیم سے مراد:
ایسی تعلیم جس میں اسے کل کو نوکری مل سکے، جس سے مراد ھے تمام اعلیٰ عصری علوم میں ڈگریاں یا ماسٹرز کرنا، ان کے لیے اعلیٰ معیارِ زندگی فقط اعلیٰ تعلیم کے ذریعے حاصل ہونا ھے۔ ایک بیٹی ہو یا بیٹا، وہ طبیب یا مہندس تو لازمی ہو یا کم سے کم ڈگری تو کر رکھی ہو تاکہ لوگ کہیں جہالت کا طعنہ نہ دیں۔

¤ تعلیم کی اصل تعریف:
تعلیم وہ ھے جس کے بارے میں قرآن نے ہمیں بتلایا یعنی:

❞ اِقراء ❝

تعلیم وہ ھے جس کی تاکید آپ ﷺ نے حدیث میں کی:

"طلب العلم فریضة علی کل مسلم”

تعلیم وہ ھے جو انسان کو دنیا و آخرت دونوں میں کام دے، تعلیم وہ ھے جس کے حصول میں نیت اللّٰه ﷻ کی خوشنودی حاصل کرنا ہو۔
یاد رکھیں عصری تعلیم بھی ضروری ھے اور دینی تعلیم بھی۔
مگر ہم مسلمانوں میں عمومی طور پر جذباتیرواج کیا ھے کہ ساری زندگی صرف دینی کتب کا مطالعہ کریں اور عصری تعلیم کا حرف پڑھنا بھی مکروہ سمجھیں، یا پھر دوسری جانب یہ کہ بچپن میں بچوں کو "مولوی صاحب لگوا کر” نورانی قاعدہ اور قرآن ایک مرتبہ مکمل پڑھوا دیں، نماز بھی مولوی صاحب سکھلا دیں اور بس پھر کچی، پکی، میٹرک، انٹر میڈیٹ، ڈگری، ماسٹرز وغیرہ جو پھر رکنے کا نام نہیں لیتے۔ ۔ ۔
کیا یہی ھے درج بالا آیت و حدیث کا مفہوم؟ ذرا سوچیے کہاں دینی تعلیم ایک لمحے کے لیے اور کہاں عصری تعلیم کے لیے اتنی فکر کے اعلی نمبر لینے کے لیے، Straight A’s لانے کے لیے رات دن ایک کر دیا اور زندگی کے کم و بیش 16 سال لگا دیے۔

¤ ہمارا المیہ:
تعلیم مکمل ہونے تک لڑکے سے کہا جاتا ھے شادی کا نام مت لینا کیونکہ "تم اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوئے” اور لڑکی سے کہا جاتا ھے "اعلیٰ تعلیم مکمل کر لو اچھے گھرانے کا رشتہ ملے گا”۔ ایک جائز نفسانی خواہش کے حصول کے لیے نکاح کا حکم دیا گیا ھے جس کو اتنا مشکل بنا دیا اور کالج یونیورسٹی میں نامحرموں سے دوستیاں اور ہاتھ و گلے ملنے پر جواز کا حکم دے دیا۔ پھر جب شادیوں کا وقت آتا ھے تو لڑکی نے اتنی تعلیم لے لی کہ اس کا مزاج و سوچ بھی ایسی بن گئی کہ وہ اب ایسے مرد سے تو شادی کرنے کو مکروہ سمجھے گی جو عصری تعلیمی ڈگریاں اس سے کم رکھتا ہو۔

◯ اُدھار کا دین:
دین کو ہم نے بس مسلمان کہلوانے کے لیے ایک طرف رکھ دیا ھے جسے کبھی کبھار اٹھا کر دیکھ لیتے ہیں وہ بھی رسمی طور پر یعنی اب بیٹی کا رشتہ کرنا ھے تو "استخارہ” کرواؤ اور دو دو نفل اتنی اتنی تسبیحات پڑھو تاکہ رشتہ اچھا مل جائے۔ عاجز کو اس دھوکے پر ہنسی آتی ھے کہ اللّٰه ﷻ کو لوگ عمومی طور پر تب ہی یاد کرتے ہیں جب اپنا کوئی کام ہو، دین کو ضرورت بنا کر رکھ دیا ھے۔ آج شریعت کی مثال ایک ادھار کی سی بن چکی ھے، دین کو وقتی طور پر اپنے مقاصد کے لیے ادھار کے طور پر اپنا لیتے ہیں اور مقصد پورا ہونے کے بعد سر سے اتار دیتے ہیں۔ لوگ فرائض کو چھوڑ کر نوافل میں لگ گئے، سنت کو چھوڑ کر مباحات کی فکر کرتے ہیں۔ بیٹی کو پردے جیسے اہم دینی حکم کا بھی علم نہیں مگر وہ ماہرِ بیالوجی ھے۔ کیا دوغلا پن ھے کہ پھر شادی کے وقت بھی ہم ایسے لڑکے کو رشتہ دینا پسند کرتے ہیں جو بس ہم جیسا باتوں کا مسلمان ہو عمل میں وہ بھی انگریز یا فرنگی ہو۔ مگر نکاح کے لیے استخارہ بھی مولوی صاحب سے کروا رہے اور بیٹی کے سر پر بھی قرآن مجید کا سایہ کر کے ہی رخصت کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ آہ !!

اِضافی:-

آپ بیٹی کا نکاح روک کر اتنی تعلیم دلوا رہے ہیں تاکہ وہ نوکری کرے، اگر کل کو کوئی مسئلہ ہوا تو یہی تعلیم اس کے کام آئے گی، اگر آپ کی اللّٰه ﷻ پر پہلے سے ہی اتنی بے اعتمادی ھے کہ شاید اس کے گھر میں اللّٰه ﷻ برکت نہیں ڈالیں گے اور اس کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑ جائے گا تو یہ تو بہت ہی غلط بات ھے۔

اور اگر ویسے ہی آپ بیٹی کی بہتری کی سوچ رکھتے ہوئے اسے اتنی اعلیٰ تعلیمات دلوا رہے ہیں تو سمجھ لیں کہ:

• اللّٰه ﷻ پر یقین رکھ کر اس کا نکاح وقت پر کسی دیندار گھرانے میں کریں اور وہ نکاح کے بعد اپنی تعلیم کو جاری رکھ لے۔
• اعلیٰ تعلیم حاصل کرانے کا تعلق "اچھے رشتے” کی ضمانت نہیں، نہ ہی دینی اعتبار سے اور نہ ہی دنیوی، یہ فقط ایک غلط سوچ ھے۔
• لڑکی کا معیار اعلیٰ تعلیم سے نہیں، اعلی اخلاق اور تمیز سے بنے گا

مزید یہ کہ تعلیم بھی "عصری” کے لیے نکاح روک رکھا ہوتا ھے، نہ اسے دینی تعلیم دلواتے ہیں نہ ہی اس لڑکی کو خود حصولِ دینی علوم کا شوق ہوتا ھے۔ دینی تعلیم دلوانی نہیں، شادیاں وقت پر کرنی نہیں، پھر شکوے کرتے رہنا کہ ہمارے گھروں میں اتنی پریشانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہر کسی کو نوکری، اور دنیوی معیار پر پورا اترنے کی فکر ھے، کوئی یہ غم نہیں کرتا ھے کہ زمین کے چار گز نیچے اندھیری قبر میں اکیلے پن میں کیا چیز اور کیا عمل کام آئے گا۔ دنیا والے جن کے معیار پر اترنے اور طعنوں کی فکر سے بچنے کے لیے ساری زندگی دوڑ دھوپ کرتے رہے وہ آپ کے یا آپ کی اولاد کے انتقال پر چار دن رو لیں گے مگر وہیں رہ جائیں گے قبر میں بس آپ یا آپ کی اولاد اکیلے اور وہ چیز رہ جائے گی جسے عمومی طور پر آج کا مسلمان عصری تعلیم کے بھینڈ چڑھا رہا ھے یعنی دینی تعلیم اور اس پر عمل۔

حاصلِ کلام:-

اگر تو آپ مسلمان ہیں تو عصری تعلیم اور دنیاوی تعلیم دونوں میں توازن قائم کریں۔ عصری تعلیم کے لیے اتنی ہی فکر کریں جتنا اس دنیا میں رہنا ھے، نکاح کو وقت پر کریں کیونکہ فتنہ کا زمانہ بڑھ رہا ھے اور نفسانی خواہشات کا حلال طریقہ نکاح ہی ھے، نا کہ ماسٹرز و ڈگریاں۔ چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی تعلیم نکاح کے بعد جاری رکھ سکتے ہیں۔ دو وقت کی روٹی لڑکے کے والدین بھی کھلا سکتے ہیں اور ساتھ اللّٰه ﷻ کو خوش کرنے والے اعمال کرتے رہیں تاکہ عصری تعلیم ہو یا نکاح کے بعد کی زندگی ہر چیز میں برکت ہو۔ جو صرف شرہعت پر عمل کرنے اور دین دار سے شادی کرنے سے ہی آ سکتی ھے۔ عاجز کی آپ کو ایک نصیحت ھے کہ مسلمان ہونے کے ساتھ اب "مومن” بننے کی فکر کریں نا کہ انگریز بننے کی۔

Exit mobile version