بحریہ ٹاؤن کے ہزاروں ملازمین پنشن کے حق سے محروم
ملوث بااثراعلیٰ افسران تاحال سزاء سے محفوظ
EOBI
میں دو بدعنوان اعلیٰ افسران کی ملی بھگت سے بحریہ ٹاؤن کے کروڑوں روپے مالیت کے کنٹری بیوشن اسکینڈل کا انکشاف ہوا ہے۔
تفصیلات کے مطابق نجی شعبہ میں خدمات انجام دینے والے ملازمین کو ان کی ریٹائرمنٹ یا معذوری اور ان کی وفات کی صورت میں ان کے لواحقین کو پنشن فراہم کرنے والے ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن(EOBI) زیر نگرانی وزارت بیرون ملک پاکستانی و ترقی انسانی وسائل،حکومت پاکستان میں انتظامیہ کی کمزوری، بااثر بدعنوان افسران کی ملی بھگت اور ادارہ میں جزاء و سزاء کا عمل نہ ہونے کے باعث یکے بعد دیگرے مالی اسکینڈل سامنے آرہے ہیں ۔
اگرچہ پچھلے دنوں EOBI میں بحریہ ٹاؤن کراچی اور لاہور کے کروڑوں روپے مالیت کے کنٹری بیوشن اسکینڈل کا انکشاف ہوا ہے لیکن انتہائی بااثر اور طاقت ور افسران کے ملوث ہونے کی وجہ سے انتظامیہ کی جانب سے اس اسکینڈل کو صیغہ راز میں رکھا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ بحریہ ٹاؤن کو ملک کے سب سے بڑے ریئل اسٹیٹ ڈیویلپرز کا اعزاز حاصل ہے۔ اس منفرد رہائشی منصوبہ کے بانی ملک میں صنعت تعمیرات کی معروف کاروباری شخصیت ملک ریاض حسین ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کے تحت اسلام آباد، لاہور، کراچی ،پشاور اور نواب شاہ اور دیگر شہروں میں عظیم الشان رہائشی اور کاروباری منصوبے تعمیر کئے گئے ہیں ۔ بحریہ ٹاؤن اور اس سے وابستہ متعدد ٹھیکیداری/ ذیلی اداروں میں ہزاروں کارکن خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ایک نجی کاروباری ادارہ کی حیثیت سے بحریہ ٹاؤن بھی EOBI میں رجسٹرڈ ادارہ ہے اور اس کا رجسٹریشن نمبر BBA-00829 اور سب کوڈ AA-012 ہے ۔ بحریہ ٹاؤن کے ملازمین کی تعداد 25,000 جبکہ ای او بی میں رجسٹرڈ ملازمین کی تعداد صرف 6,000 بتائی جاتی ہے ۔
ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس قانون مجریہ 1976ء کے مطابق ای او بی آئی میں رجسٹرڈ ہر ادارہ کو اپنے رجسٹرڈ ملازمین کی مد میں رواں کم از کم اجرت کے 6 فیصد کے مساوی ماہانہ کنٹری بیوشن جمع کرانا لازمی ہے اور تاخیر سے ادائیگی کی صورت میں رجسٹرڈ آجران سے واجب الادا کنٹری بیوشن کے ساتھ جرمانہ بھی وصول کیا جاتا ہےجو زیادہ سے زیادہ 50 فیصد تک ہوسکتا ہے۔
انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق بحریہ ٹاؤن کراچی اور لاہور کنٹری بیوشن اسکینڈل راولپنڈی کا انکشاف راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک شہری نوید الرحٰمن ولد عبدالرحمٰن کی جانب ای او بی آئی کے چیئرمین فلائیٹ لیفٹیننٹ(ر) خاقان مرتضیٰ کے نام ایک تحریری شکایت معہ نا قابل تردید دستاویزی ثبوتوں کے ذریعہ ہوا تھا ۔ بعد ازاں شکایت کنندہ نوید الرحٰمن نے ای او بی آئی کی جانب سے اپنی پہلی شکایت پر کوئی کارروائی نہ ہونے پر 2 اگست 2024ء کو دوبارہ چیئرمین کے نام ایک تحریری شکایت ارسال کی تھی جس میں انہوں نے ایک بار پھر فوری طور پر بحریہ ٹاؤن اسکینڈل کی انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ جس پر چیئرمین نے ایچ آر ڈپارٹمنٹ کو شکایت کنندہ شہری نوید الرحٰمن کی شکایت کے مستند ہونے کی تصدیق کرنے کی ہدایت کی تھی۔ جس پر شاکر علی ڈائریکٹر ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کراچی نے کارروائی کرتے ہوئے شکایت کنندہ نوید الرحمٰن سے ان کی تحریری شکایت میں دیئے گئے فون نمبر پر رابطہ کرکے اس شکایت کی تصدیق چاہی تھی ۔ شاکر علی سے گفتگو کے دوران نوید الرحمٰن نے ای او بی آئی کے دو اعلیٰ افسران مراتب علی ڈوگر ڈائریکٹر آپریشنز اور مبشر رسول ڈائریکٹر آپریشنز کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی اور لاہور سے کروڑوں روپے کی رشوت کی وصولی کی شکایت کی پوری ذمہ داری لیتے ہوئے اس اہم اسکینڈل کی تحقیقا ت کرنے اور اس میں اپنے ہر ممکن تعاون کی پیش کش بھی کی تھی، بصورت دیگر نوید الرحمٰن نے حصول انصاف اور اس اسکینڈل کی تحقیقات کے لئے متعلقہ تحقیقاتی اداروں سے رجوع کرنے کا عندیہ ظاہر کیا تھا ۔
جس کے بعد ایچ آر ڈپارٹمنٹ نے اس اسکینڈل کی تحقیقات کے لئے ای او بی آئی کے دو افسران عامر جاوید ڈائریکٹر فنانس اینڈ اکاؤنٹس ہیڈ آفس کراچی اور علی انور جمالی ریجنل ہیڈ کورنگی پر مشتمل ایک فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کمیٹی (FFC) تشکیل دینے کی سفارش کی تھی۔
لیکن اس دوران ای او بی آئی کے دبنگ،اصول پرست اور فلاحی ادارہ کو کالی بھیڑوں سے صاف کرنے کا عزم رکھنے والے چیئرمین فلائیٹ لیفٹیننٹ (ر) خاقان مرتضیٰ 18 ستمبر کو ریٹائر ہوگئے اور ان کے جانے کے بعد ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں تعینات ہونے والے نئے افسر غلام محمد،ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل نے اپنے2007ء کے بیچ سے تعلق رکھنے والے گہرے دوستوں مراتب علی ڈوگر ڈائریکٹر اور مبشر رسول ڈائریکٹر کی جان بخشی کے لئے اس اہم اسکینڈل کو سرد خانہ میں ڈال دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ای او بی آئی کے موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ غلام محمد کا تعلق بھی 2007ء کے بیچ اور آپریشنز کیڈر سے بتایا جاتا ہے اور وہ ہیڈ آفس کراچی میں کلیدی عہدہ سنبھالنے کے بعد پس پردہ مقاصد کے تحت ملک بھر سے چن چن کر اپنے آپریشنز کیڈر اور اپنے 2007ء سے تعلق رکھنے والے من پسند اور وفادار افسران کو ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں کلیدی عہدوں پر تعینات کرانے میں مصروف ہے ۔ جبکہ مقررہ طریقہ کار کے مطابق ہیڈ آفس میں صرف اور صرف آفس کیڈر سے تعلق رکھنے والے افسران ہی کو تعینات کیا جاسکتا ہے۔
انتہائی باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی اور لاہور کے ہزاروں محنت کشوں اور ان کے لواحقین کو پنشن کے بنیادی حق سے محرومی کا سودا کرنے والوں میں ای او بی آئی کے دو انتہائی کرپٹ اور بااثر افسر مراتب علی ڈوگر موجودہ ریجنل ہیڈ ریجنل آفس شیخو پورہ اور مبشر رسول موجودہ DDG ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹی III اسلام آباد ملوث پائے گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مراتب علی ڈوگر ایک زبردست سیاسی اثر و رسوخ والا افسر ہے۔ جسے ای او بی آئی میں "میزائل والی سرکار” بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ اکثر اپنی نجی محفلوں میں علی الاعلان کہتا ہے کہ اس کی جیب میں ہر وقت تین چار میزائل ہوتے ہیں۔ مراتب علی ڈوگر کے دور مار میزائلوں میں ملتان سے تعلق رکھنے والے معروف سیاستدان اور PTI کے مرکزی رہنماء شاہ محمود قریشی، PTI کے ایم این اے ملک محمد عامر ڈوگر ،سابق وزیر اعظم اور موجودہ سنیٹر یوسف رضا گیلانی اور معروف بیوروکریٹ توقیر شاہ کے نام آتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مراتب علی ڈوگر کے ان سیاسی شخصیات سے دیرینہ مراسم قائم ہیں اور وہ ان نامی گرامی اور طاقتور شخصیات کے ذریعہ ماضی میں بھی من پسند اور منفعت بخش عہدوں پر اپنی تعیناتی کراتا رہا ہے۔ مراتب علی ڈوگر ان طاقتور سیاسی شخصیات سے اپنے ذاتی تعلقات کے بل بوتے پر دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا کوئی بال تک بیکا نہیں کر سکتا اور نہ ہی اسے کوئی اس کی سیٹ سے ہلا سکتا ہے۔
لیکن ای او بی ائی کے پچھلے اصول پرست اور دبنگ چیئرمین فلائیٹ لیفٹیننٹ (ر) خاقان مرتضیٰ نے 22 اپریل 2024ء میں اپنے عہدہ کا چارج سنبھالنے کے بعد گھمنڈی افسر مراتب علی ڈوگر DDG B&C II لاہور کو اس کی غیر تسلی بخش کارکردگی اور سنگین بدعنوانیوں میں ملوث ہونے پر اس کے تمام کس بل نکالتے ہوئے اور اس کے غرور کا خاتمہ کرتے ہوئے اسے DDG B&C II لاہور جیسے اہم منصب سے ہٹاکر ریجنل ہیڈ ساہیوال مقرر کر دیا تھا اور اس کی جانب سے کرائی جانے والی تمام تگڑی سفارشوں کو بھی مسترد کردیا تھا۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ بدعنوان افسر مراتب علی ڈوگر 2021ء میں اپنے سیاسی میزائلوں کے بل بوتے پر ای او بی آئی کی ایکٹنگ چیئرمین شازیہ رضوی(غیر قانونی طور پر ڈیپوٹیشن پر تعینات شدہ) کے ذریعہ اپنے سے سینئر فرض شناس اور دیانتدار افسر محمد طاہر فاروق ڈائریکٹر آپریشنز لاہور کا ٹرانسفر راولپنڈی کرا کے ان کی سیٹ پر قابض رہ چکا ہے۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ مراتب علی ڈوگر المعروف "میزائلوں والی سرکار” نے DDG B&C II کا کلیدی عہدہ سنبھالتے ہی لاہور شہر کے سینکڑوں صنعتی،کاروباری اور تجارتی اداروں سے ای او بی آئی کے کنٹری بیوشن کی وصولیابی کے نام پر دو سال کے مختصر عرصہ میں وہ لوٹ مار مچائی تھی کہ الامان الحفیظ ۔ اس مقصد کے تحت مراتب علی ڈوگر نے اپنے من پسند اور جی حضوری فیلڈ افسران پر مشتمل کرپشن کا ایک فعال نیٹ ورک ترتیب دیا تھا۔ جس میں شامل پنجاب کے مختلف ریجنل ہیڈز اور بیٹ آفیسرز باقاعدگی سے رجسٹرڈ فیکٹریوں اور اداروں سے بھتہ وصول کرکے اپنے افسر بالا مراتب علی ڈوگر DDG B&C II لاہور کو پہنچایا کرتے تھے۔
کرپٹ ترین افسر مراتب علی ڈوگر 2021ء سے دسمبر 2023ء تک DDG B&C II لاہور کے انتہائی کلیدی عہدے پر فائز رہا ۔ اس مدت کے دور ان اس نے زبردست کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کے وہ ریکارڈ قائم کئے کہ جن کی مثال ای او بی آئی پنجاب کی تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ مراتب علی ڈوگر ایمپلائی نمبر 923159 اور مبشر رسول ایمپلائی نمبر 923228، 12 فروری 2007ء میں صوبہ پنجاب کے کوٹہ پر اکٹھے ای او بی آئی میں بھرتی ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ دونوں لالچی اور بدعنوان افسران نے اس فلاحی ادارہ میں آتے ہی غریب محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے بجائے اپنی ذات کے لئے مال و زر بنانا شروع کر دیئے ۔ ان دونوں بدعنوان افسران نے ای او بی آئی کے مختلف ریجنل آفسوں میں ریجنل ہیڈ کے انتہائی منفعت بخش عہدوں پر تعیناتی کے دوران غریب محنت کشوں کو ان کے پنشن کے بنیادی حق سے محروم کرتے ہوئے کروڑوں روپے کی کرپشن کی اور لوٹ کھسوٹ کا وہ بازار گرم کیا کہ لوگ انگشتِ بدنداں رہ گئے تھے۔
ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ بدعنوان افسر مراتب علی ڈوگر ڈائریکٹر آپریشنز رشوت کی کالی کمائی کی بدولت ملتان میں اپنا روشن اسکول سسٹم چلا رہا ہے جبکہ مبشر رسول کراچی شہر میں فش فارمنگ کی انڈسٹری کا ایک معروف نام بن گیا ہے اور اس نے کراچی کے ایک انتہائی مہنگے پوش علاقے میں مستقل رہائش اختیار کر لی ہے۔ اگر حکومت کی جانب سے ایف آئی اے کے ذریعہ ای او بی آئی کے ان دونوں بدنام زمانہ افسران کی آمدنی سے زائد رہن سہن، شاہانہ ٹھاٹ باٹھ، بینک اکاؤنٹس اور اثاثہ جات کی تحقیقات کرائی جائیں تو انتہائی چشم کشاء انکشافات متوقع ہیں ۔
ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس قانون مجریہ 1976ء کے تحت رجسٹرڈ اداروں کے ریکارڈ کی تصدیق، ملازمین کی تعداد کے تعین اور واجب الادا کنٹری بیوشن کی ریکوری کے لئے ریجنل ہیڈز کو VR-001 سے VR-16 تک مختلف نوعیت کے نوٹس جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ چنانچہ ان ہم نوالہ و ہم پیالہ کرپٹ دوستوں مراتب علی ڈوگر DDG B&C II لاہور اور مبشر رسول ریجنل ہیڈ کریم آباد نے 2022ء میں ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ان نوٹسوں کی آڑ میں ای او بی آئی کی تاریخ میں کرپشن کے ایک بڑا معرکہ کو سر کرنے کا مشترکہ منصوبہ تیار کیا تھا۔ جس کے تحت بحریہ ٹاؤن کراچی اور لاہور سے ان کے رجسٹرڈ سینکڑوں ملازمین کی مد میں واجب الادا ای او بی آئی کنٹری بیوشن کی وصولیابی کا نام پر بحریہ ٹاؤن کراچی اور لاہور کی انتظامیہ سے مک مکا کرکے کروڑوں روپے کی رشوت ہتھیانا تھا ۔
اس مذموم منصوبہ کے تحت پہلے مبشر رسول ریجنل ہیڈ کریم آباد کو بحریہ ٹاؤن کراچی کو ایک بھاری رقم کا ڈیمانڈ نوٹس VR-007 جاری کرنا تھا اور اس کے بعد بحریہ ٹاؤن کراچی کے ساتھ مک مکا کر کے اس ڈیمانڈ نوٹس کو معمولی رقم میں تبدیل کر دینا تھا۔چنانچہ مبشر رسول نے اپنے اس مشترکہ شیطانی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی خاطر پہلے 20 جون 2022ء کو بحریہ ٹاؤن کراچی کو مبلغ 492,087,960 روپے کی خطیر رقم کا ڈیمانڈ نوٹس VR-007 برائے مدت جولائی 2016ء تا جون 2019ء جاری کیا ۔ جس میں بحریہ ٹاؤن کراچی کے 11,683 محنت کشوں کی چوری (evasion) ظاہر کی گئی تھی۔ ریجنل ہیڈ مبشر رسول کے اس طریقہ واردات پر عمل کرتے ہوئے مراتب علی ڈوگر DDG B&C II نے بھی بذات خود ریجنل آفس لاہور ساؤتھ جا کر اپنی نگرانی میں 22 ستمبر 2022ء کو جولائی 2013ء سے جون 2020ء تک کے آڈٹ کی مدت میں بحریہ ٹاؤن لاہور کو مبلغ 591,849,720 روپے مالیت کا ایک ڈیمانڈ نوٹس VR-007 جاری کروایا تھا۔ ریجنل آفس لاہور ساؤتھ کے ریجنل ہیڈ احمد کمال پاشا جو ای او بی آئی میں ایک محنتی اور فرض شناس افسر کے طور مشہور ہیں نے ابتداء میں اس غیر قانونی معاملہ میں کسی قسم کے تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن جب ان کے افسر بالا مراتب علی ڈوگر DDG B&C II نے ان پر بیحد دباؤ ڈالا اور اپنے احکامات کی عدم تعمیل کی صورت میں انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں تو وہ اس کے حکم کی تعمیل کرنے پر مجبور ہو گئے تھے اور انہوں نے کافی رد کد کے بعد بالآخر بحریہ ٹاؤن کو ڈیمانڈ نوٹسVR-007 جاری کر دیا تھا۔
اب یہاں سے انتہائی شاطر و چالاک افسران مراتب علی ڈوگر اور مبشر رسول کا شیطانی کھیل شروع ہوتا ہے ۔ انہوں نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی انتظامیہ کے ساتھ کروڑوں روپے کے واجب الادا کنٹری بیوشن کے معاملہ میں مک مکا کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس کھیل کا پہلا نتیجہ کراچی میں سامنے آیا۔ جہاں مراتب علی ڈوگر اور مبشر رسول نے نہایت ڈھٹائی، مکاری اور بے ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی سے 50 کروڑ روپے کے ڈیمانڈ نوٹس کی رقم کو انتہائی کم کرکے اسے صرف مبلغ 60,23,160 روپے کی معمولی رقم میں تبدیل کر دیا تھا اور اپنی اس کارستانی کے عوض بحریہ ٹاؤن کراچی کی انتظامیہ سے 5 کروڑ روپے کی خطیر رقم بطور رشوت بٹور لی۔
لیکن کہاوت مشہور ہے کہ چور چوری سے جائے لیکن ہیرا پھیری سے نہ جائے، لہذاء ان بنارسی ٹھگوں نے اپنے تئیں پوری کوشش کی کہ 50 کروڑ روپے والا پچھلا ڈیمانڈ نوٹس VR-007 سرکاری ریکارڈ سے ہی غائب کردیا جائے لیکن وہ اپنی مقدور بھر کوششوں کے باوجود اس نوٹس کو غائب کرنے میں ناکام رہے اور یہ دونوں ڈیمانڈ نوٹس VR-007 ای او بی آئی کے ریکارڈ میں پوری طرح محفوظ رہے۔
مراتب علی ڈوگر اور مبشر رسول کی عجب کرپشن کی غضب کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی ۔ بعد ازاں بحریہ ٹاؤن کراچی کی انتطامیہ نے موقع غنیمت جانتے ہوئے ان دونوں ٹھگ افسران سے بحریہ ٹاؤن کراچی کے لئے آئندہ مالی سال یعنی جولائی 2019ء تا جون 2022ء تک کی مدت کے لئے Clearance Certificate طلب کیا ۔جس پر مراتب علی ڈوگر اور مبشر رسول نے اس بار بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کراچی کو مبلغ 60,08,558 روپے کے عوض Clearance Certificate بھی جاری کردیا اور اس خدمت کے بدلے ان سے مزید 5 کروڑ روپے اینٹھ لئے۔
اس طرح انتہائی بدعنوان افسران مراتب علی ڈوگر DDG B&C II اور مبشر رسول ریجنل ہیڈ کریم آباد نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے کروڑوں روپے کی رشوت کے عوض بحریہ ٹاؤن کے ہزاروں محنت کشوں اور ان کے لواحقین کی پنشن کا حق غضب کرنے کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کے فلاحی ادارہ کو مجموعی طور پر ایک سے ڈیڑھ ارب روپے کی خطیر رقم کا چونا لگایا ۔
اب آتے ہیں کہانی کے دوسرے حصے کی طرف، اگرچہ مراتب علی ڈوگر DDG B&C II نے اپنے اثر و رسوخ اور چالاکی کے ذریعہ ریجنل آفس لاہور ساؤتھ سے بحریہ ٹاون کو مبلغ 60 کروڑ روپے کا ڈیمانڈ نوٹس VR-007 تو جاری کرا لیا تھا لیکن جب مراتب علی ڈوگر کے اس زبردست مکا مکا کی بھنک احمد کمال پاشا ریجنل ہیڈ لاہور ساؤتھ کے کانوں میں پڑی تو انہوں نے ڈیمانڈ نوٹس VR-007 کو تبدیل کرنے سے صاف انکار کر دیا۔اپنے ماتحت افسر کے صاف صاف انکار پر مراتب علی ڈوگر DDG B&C II عرف میزائل والی سرکار نا صرف ہکا بکا رہ گیا بلکہ اپنے ماتحت افسر احمد کمال پاشا پر بری طرح سیخ پا بھی ہوگیا اور اس نے احمد کمال پاشا کے خلاف انتقامی کارروائی کرتے ہوئے اپنے اثر ورسوخ کی بدولت ہیڈ آفس کراچی سے بار بار احمد کمال پاشا کے لاہور سے ٹرانسفر کرنے کا مطالبہ کردیا۔ لیکن ہیڈ آفس کراچی نے مراتب علی ڈوگر کے مطالبہ کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ اس قبل کسی سینئر افسر نے ایک اچھے افسر کو اس طرح سے ٹرانسفر نہیں کیا۔ جس پر مراتب علی ڈوگر کے ارمانوں پر اوس پڑگئی تھی۔
معلوم ہوا ہے کہ راولپنڈی کے شہری نوید الرحمٰن کی جانب سے مراتب علی ڈوگر اور مبشر رسول کے بحریہ ٹاؤن کنٹری بیوشن اسکینڈل میں ملوث ہونے کی تحریری شکایت منظر عام پر آنے کے بعد دونوں بدعنوان افسران مراتب علی ڈوگر اور مبشر رسول کی رات کی نیندیں اڑ گئی ہیں اور انہوں نے اپنے بچاؤ کے لئے اعلیٰ سرکاری اور سیاسی شخصیات کا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے لئے بھرپور رابطے شروع کر دیئے ہیں ۔
غریب محنت کشوں کی پنشن کے قومی ادارہ ای او بی آئی میں بااثر اور بدعنوان اعلیٰ افسران مراتب علی ڈوگر ڈائریکٹر آپریشنز اور مبشر رسول ڈائریکٹر آپریشنز کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال اور بحریہ ٹاؤن کراچی اور لاہور سے کروڑوں روپے کی لوٹ کھسوٹ کرنے اور ہزاروں حقدار محنت کشوں اور ان کے بے سہارا لواحقین کو ان کی پنشن کے حق سے محروم کرنے کی تشویش ناک صورت حال کے پیش نظر وطن عزیز کے جملہ ارباب اختیار وزیر اعظم میاں شہباز شریف، وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین، وفاقی سیکریٹری ڈاکٹر ارشد محمود اور بورڈ آف ٹرسٹیز کے ارکان سے دردمندانہ اپیل ہے کہ ان دونوں کرپٹ ترین ڈائریکٹروں مراتب علی ڈوگر اور مبشر رسول کو فوری طور ملازمت سے معطل کر کے بحریہ ٹاؤن کنٹری بیوشن اسکینڈل کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں اور بھاری رشوت کے عوض بحریہ ٹاؤن کے ہزاروں محنت کشوں کو پنشن سے محروم کرنے اور غریب محنت کشوں کے ادارہ ای او بی آئی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے سنگین الزام میں ان دونوں بدعنوان اعلیٰ افسران سے ایک ایک پائی وصول کی جائے اور انہیں قرارِ واقعی سزا دے کر نشان عبرت بنادیا جائے تاکہ آئندہ ای او بی آئی کے کسی بھی بااثر افسر کو غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ میں کرپشن کرنے کی مجال تک نہ ہو سکے ۔