ہری پور (محمد آصف اعوان): سپریم کورٹ نے سرکاری ملازمین کے بچوں کو اشتہار یا اوپن میرٹ کے بغیر نوکری دینے کی پالیسی ختم کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ عدالت نے واضح کیا ہے کہ وزیرِاعظم کو بھی ملازمتوں کے کوٹے سے متعلق رولز میں نرمی کرنے کا اختیار نہیں ہے، اور کوٹے کے تحت نوکریاں دینا نہ صرف میرٹ کے خلاف ہے بلکہ یہ امتیازی سلوک بھی ہے۔
سپریم کورٹ نے سرکاری ملازمین کے بچوں کے لیے کوٹے سے متعلق تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے اشتہار یا اوپن میرٹ کے بغیر ملازمت دینے کی پالیسی ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین کے بچوں کے لیے کوٹہ آئین کے آرٹیکل 3، 4، 5 کی ذیلی شق 2، آرٹیکل 25 اور آرٹیکل 27 سے متصادم ہے۔
سپریم کورٹ کا یہ 11 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جسٹس نعیم اختر افغان نے تحریر کیا ہے۔ فیصلے میں سپریم کورٹ نے جی پی او کی اپیل منظور کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کے 2021 کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہے اور سرکاری ملازمین کے بچوں کے لیے تمام کوٹے، پالیسیوں اور پیکجز کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔
فیصلے میں عدالت نے پرائم منسٹر پیکج فار ایمپلائمنٹ پالیسی، سندھ سول سرونٹس رولز 1974 کا سیکشن 11 اے، خیبرپختونخوا سرول سرونٹس رولز 1989 کے سیکشن 10 کی ذیلی شق 4، اور بلوچستان سرول سرونٹس رول 2009 کی شق 12 کو بھی کالعدم قرار دیا ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں اشتہار یا اوپن میرٹ کے بغیر ملازمت دینے کی پالیسی ختم کریں۔
تاہم، سپریم کورٹ نے وضاحت کی ہے کہ اس عدالتی فیصلے کا اطلاق دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہونے والے افراد کے ورثاء اور شہدا کے ورثاء کو ملنے والے پیکجز پر نہیں ہوگا۔
یاد رہے کہ شہری محمد جلال نے اپنے والد کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملازمت کے حصول کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا، جس پر پشاور ہائی کورٹ نے محمد جلال کو کنٹریکٹ پر ملازمت دینے کی ہدایت کی تھی۔ جی پی او نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، جس پر سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا۔